کیا بالی وڈ میں ساؤتھ انڈیا کی فلموں کے ’ری میک کا فارمولہ‘ ناکام ہو رہا ہے؟
ممبئی،مئی. حال ہی میں شاہد کپور کی ایک فلم ’جرسی‘ رلیز ہوئی۔ یہ فلم کب آئی اور کب گئی پتا ہی نہیں چلا۔ یا سچ پوچھیں تو، زیادہ تر ناظرین کو اس سے فرق ہی نہیں پڑا کیونکہ وہ ان دنوں اللو ارجن، یش اور رشمیکا مندانہ کے سحر میں گرفتار ہیں جب اصلی اڈلی، سامبر مل رہا ہو تو پنڈی چھولے کے ساتھ ڈوسا کون کھائے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ساؤتھ انڈیا کی فلموں کے رائٹس (جملہ حقوق) لے کر بالی وڈ کے ری میک بنانے کے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ فی الحال تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اب جب کہ جنوبی انڈیا کی فلم انڈسٹری کے ستاروں کا جادو ملک میں سر چڑھ کر بول رہا ہے تو ایسے میں تمل، تیلگ، ملیالم اور کنڑ زبان میں بننے والی اصل سپر ہٹ فلمیں ہندی سٹائل میں دیکھنے میں کیا مزہ آئے گا؟ساؤتھ کے ستارے ملک کے عوام کے لیے انجان نہیں ہیں۔ ہندی علاقوں میں بھی ان کے مداحوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان کے سٹائل کی نقل کی جانے لگی ہے۔گانوں اور ڈائیلاگز پر میمز بننا شروع ہو گئے ہیں۔ تو ایسے میں بالی وڈ ستاروں کے ساتھ ان کاپی پیسٹ کہانیوں کو دیکھنے کا کیا مزہ ہے۔ اس کی ایک مثال شاہد کپور کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’جرسی‘ ہے جو تین سال قبل آنے والی تیلگو فلم جرسی کا ہندی ری میک ہے۔ ہندی میں بننے والی یہ فلم مجموعی طور پر 20 کروڑ روپے تک نہیں کما پائی۔پرسیپٹ پکچرز کے بزنس ہیڈ یوسف شیخ کا کہنا ہے کہ ری میک کے رائٹس اب بیکار ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’اب ساؤتھ کی سپر ہٹ فلموں کا ری میک کون دیکھنا چاہتا ہے اور اسے دوبارہ بنانے کا کیا فائدہ؟ اب جب کہ وہ فلمیں ساؤتھ سے ہی ہندی میں ڈب ہو رہی ہیں تو انھیں ہندی میں بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ لوگ اپنے باکس آفس اور ان کی بیلنس شیٹ دیکھتے ہیں۔ انھیں ناظرین سے کیا مطلب؟ اب کون سمجھائے اور کس کو؟‘ یوسف شیخ کہتے ہیں ’کچھ فلموں میں 15 کروڑ کے مواد اور عام آدمی کی کہانی نے کروڑوں کی کمائی کی۔ ملٹی پلیکس والی 150 کروڑ کی تھیوری اب پلٹ گئی۔ یہاں جانے والے لوگ کچھ نیا چاہتے ہیں اور بالی وڈ کے لوگ ’باہوبلی‘ اور ‘آر آر آر’ کے برابری والی فلمیں تو دے نہیں سکتے۔‘یوسف شیخ کہتے ہیں کہ ’بالی وڈ میں صرف تجویزیں دی جا رہی ہیں۔ اپنی خود کی فلمیں کہاں بنائی جا رہی ہیں؟ ناظرین کی پرواہ کس کو ہے لیکن اب ناظرین اسے قبول نہیں کرتے۔’سارا کھیل ٹارگٹ آڈینس کو سمجھنے کا ہے اور بالی وڈ میں کوئی بھی اس پر اپنا دماغ نہیں لگا رہا جبکہ جنوبی انڈیا کے لوگ سوچ سمجھ کر ایسی فلمیں بنا رہے ہیں۔ ناظرین کی اتنی بڑی تعداد ہے لیکن ٹارگٹ ہی سیٹ نہیں ہے۔‘اس سے پہلے ساؤتھ کی سپر ہٹ فلموں کے ہندی ری میک کوئی بری بات نہیں تھی۔ بالی وڈ کے فلمسازوں نے اس فارمولے سے خوب کمایا ہے۔وجہ صاف تھی کہ سوشل میڈیا کے سیلاب سے پہلے ہندی بولنے والے علاقوں کے شائقین رجنی کانت اور کمل ہاسن کے علاوہ زیادہ تر سٹارز کو نہیں جانتے تھے۔ساؤتھ کی فلمیں اور باقی سٹارز زیادہ مقبول نہیں تھے اس لیے جب کسی فلم کی میڈیا پبلسٹی ہوتی تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ ساؤتھ کی فلاں فلم کا ری میک ہے۔ سوشل میڈیا سے پہلے کے دور میں جنوبی فلموں کے ہندی ری میک کی تاریخ سنہری رہی ہے۔ پھر چاہے وہ فلم ’ایک دوجے کے لیے‘ ہو جو تیلگو کی ’مارو چرتر‘ ہو، رام گوپال ورما کی ’شیوا‘ اور ’ستیہ‘ ہو۔اس کے علاوہ کمل ہاسن کی چاچی 420، سیف علی خان کی ‘رہنا ہے تیرے دل میں’ اور رانی مکھرجی کی ‘ساتھیا’، فہرست کافی لمبی ہے اور ان کی کامیابی کی کہانی بھی۔ایک وقت تھا جب بالی وڈ پروڈیوسر فریم ٹو فریم کاپی کر کے ساؤتھ کی فلموں کو ہندی میں بناتے تھے بعد میں قانونی کارروائی کے خوف سے پیسے دے کر ان فلموں کے رائٹس لینے لگے۔سلمان خان کے کرئیر کا سنہری دور بھی ساؤتھ کی ان فلموں کے ری میک کی وجہ سے آیا۔ سلمان خان کو نمبر ون سٹار بنانے میں ساؤتھ کی فلموں کا بھی کردار ہے۔تیرے نام (تمل کی سیتھو) سے لے کر وانٹیڈ (تیلگو کی پوکری)، جڑواں (تیلگو کا ہیلو برادر)، نو انٹری (تمل کی چارلی چپلن)، ریڈی (تیلگو کی ریڈی)، باڈی گارڈ (مالیم کی باڈی گارڈ)، کِک (تیلگو کی کِک) بھی سلمان ساؤتھ سے لائے تھے۔ اکشے کمار کی راؤڈی راٹھور (تیلگو کی وکرمارکوڈو) اور اجے دیوگن کی سن آف سردار (مریدا رمنا) بھی ایسی ہی فلموں میں شامل ہیں۔ان فلموں کی فہرست طویل ہے بھلے ہی ساؤتھ کے بڑے ستارے اب ہندی زبان میں نئی فلمیں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن آنے والے وقت میں بھی آفیشل ری میک کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ٹریڈ ماہر اتل موہن ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ’ہیر پھیر‘ کا وقت گزر گیا۔ بالی ووڈ میں فلمیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں لیکن پروڈکشن ویلیو بالکل نہیں ہے۔’لاک ڈاؤن کے بعد انداز بدل گیا ہے۔ ساؤتھ کے ری میک رائٹس ہمارے لیے صفر ہو گئے۔ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں وہاں پھسلن بہت زیادہ ہے۔‘