فلم ’دا گاڈ فادر‘ریلیز کے 50 برس بعد بھی مقبولیت کے اعلیٰ پیمانے پر
لاس اینجلس ،؍اپریل۔ہولی وڈ فلم ’دا گاڈ فادر‘ کا ریلیز کے 50 برس پورے ہونے کے بعد بھی اس کا قد مسلسل بڑھ رہا ہے۔29 سالہ نو آموز ہدایت کار فرانسس کپولا نے ماریو پوزو کے ناول کو فلمانے کا فیصلہ کیا، مگر جب اس نے فلم کے مرکزی کردار ڈان ویٹو کورلیونی کے لیے ہولی وڈ کے سابق لیجنڈ مارلن برانڈو کو لینے کا ارادہ کیا۔ کپولا نیمائیکل کورلیونی کا اہم کردار ناتجربہ کار ایل پچینو کو بخش دیا۔پہلے خود فلم نے اور پھر وقت نے نہ صرف کپولا کو ہدایت کاری سمیت ہر معاملے میں درست ثابت کیا بلکہ ان کے یہی غیرمعمولی چوائسز گاڈ فادر کی ہمیشگی کے ضامن بن گئے۔’گاڈ فادر‘ ریلیز ہوئی تو ہر طرف دھوم مچ گئی۔ فلم باکس آفس پرسپر ہٹ ثابت ہوئی اور فلمی ناقدین نے تعریفوں کے پْل باندھ دیے۔ اس سال کی آسکر نائٹ میں بہترین اداکار کے لیے مارلن برانڈو کی یادگار فتح کا اعلان ہوا آور پھر بہترین فلم کا اعزاز اپنے نام کر کے ’گاڈ فادر‘ نے تاریخ رقم کر ڈالی۔ مارلن برانڈو نے اپنی جگہ آسکر وصول کرنے ایک نسلی امریکی اداکارہ کو بھیج کے ہولی وڈ کی نسل پرستانہ روش کے خلاف احتجاج کو تاریخ کا حصہ بنا ڈالا اور یوں گاڈ فادر کے فلم سے مِتھ بننے کی بنیاد بھی رکھ دی۔ برانڈو، ایل پچینو، جیمز کان، جان کزال، رابرٹ ڈوال، ڈایان کیٹن! فلم کے ہر اداکار کی شان و شوکت ’گاڈ فادر‘ کے بعد بن گئی یا بڑھ گئی۔’گاڈ فادر‘ کی عظمت کا ایک منفرد سبب اس کا تاریخ کی واحد فلم ہونا ہے جس کے دوسرے حصے کو بھی بہترین فلم کا آسکر ملا۔رابرٹ ڈی نیرو کو پہلا آسکر اسی دوسرے حصے میں اپنے کردار پر ملا تھا۔ال پچینو اور ڈی نیرو نے بھی گاڈ فادر کے بعد متعدد گینگسٹر فلموں میں کام کیا۔ ’گاڈ فادر‘ نے صرف فلموں اور ڈراموں کو متاثر نہیں کیا، بلکہ خود اصل دنیا سے تعلق رکھنے والے مافیا گینگسٹروں کو بھی ’گاڈ فادر‘ نے بدل کر رکھ دیا۔لاس ویگس ریویو جرنل کی 2004 کی ایک رپورٹ کے مطابق جب امریکی پولیس کسی غنڈے کے ٹھکانے پر چھاپہ مارتی ہے تو جو چیز سب سے زیادہ ملتی ہے وہ ہے گاڈ فادر کی کیسٹیں یا سی ڈیز۔