’عراق، افغانستان پر ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن وہی کیا جو صحیح لگا‘:ٹونی بلیئر
لندن،مارچ۔’عراق اور افغانستان کے معاملے پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میں نے غلط فیصلہ لیا۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن میں نے اس وقت وہی کیا جو درست لگا۔‘انگلینڈ کے معروف شہر کینٹربری کے آرچ بشپ نے بی بی سی ریڈیو 4 کی ایک سیریز کے دوران برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر سے جب سوال کیا کہ وہ احساس جرم سے کیسے نمٹتے ہیں تو گفتگو کا ایک موضوع عراق اور افغانستان بھی تھا۔ریڈیو فور کا یہ پروگرام آرچ بشپ کے ساتھ انٹرویوز کی سیریز کا حصہ ہے جس میں ٹونی بلیئر سے عراق کی جنگ، افغانستان اور گڈ فرائیڈے معاہدے پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ٹونی بلیئر کیتھولک عقیدے کے حامل ہیں۔ انھوں نے موسٹ ریورینڈ جسٹن ویلبی کو بتایا کہ ان کے عقیدے نے انھیں اس حقیقت سے سمجھوتے میں مدد دی تھی کہ لوگ اْنھیں ناپسند کرتے ہیں۔
’برائی کو جڑ سے اکھاڑنا سیاست دان کا کام نہیں‘:ٹونی بلیئر نے کہا: ’مجھے وہی کرنا تھا جو میں صحیح سمجھتا تھا۔‘ٹونی بلیئر نے کہا کہ انھوں نے جو فیصلے کیے وہ پیچیدہ تھے۔ انھوں نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ ان سیاست دانوں پر بھروسہ نہ کریں جو انھیں ’سادہ نعرے‘ دیتے ہیں۔مسٹر بلیئر نے روسی حملے کی صبح ریکارڈ کیے گئے انٹرویو میں یوکرین کے تنازع پر بھی بات کی۔انھوں نے کہا کہ ’یہ بڑے پیمانے پر ہمارے مفادات کے خلاف ہے کہ یورپ کی دہلیز پر ایک آزاد خود مختار ملک پر حملہ کیا جائے اور اس پر قبضہ کر لیا جائے۔‘دنیا بھر کے دیگر تنازعات میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلوں پر انھوں نے کہا کہ ’اپنے مفادات کے بارے میں دانائی پر مبنی نظریے کا مطلب ہے کہ آپ کے لیے یہ بہتر ہے کہ آپ کسی ایسی چیز کو روکنے کے لیے کام کریں جو بالآخر کہیں نہ کہیں آپ کو متاثر کر سکتی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ یہ سیاسی رہنما کا کردار نہیں ہے کہ وہ دنیا بھر میں ’برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔‘لیکن انھوں نے کہا: ’جب آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے کہ جس میں آپ کو یہ یقین ہو کہ آپ کے ملک کے مفادات کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ کسی برے واقعے کو روکیں، تو آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اس کے لیے کھڑے ہوں، اور آپ اسے روکنے کے لیے ضروری اقدام کریں۔‘
غلط فیصلے؟:مسٹر بلیئر نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کے اپنے فیصلوں کا دفاع کیا۔انھوں نے کہا کہ ’لوگ اکثر عراق یا افغانستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے غلط فیصلہ کیا لیکن آپ کو وہی کرنا پڑتا ہے جو آپ کو صحیح لگتا ہے۔‘’آپ صحیح ہیں یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے۔ ان بڑے فیصلوں میں آپ کو واقعی نہیں معلوم ہوتا کہ (اس میں شامل) تمام عناصر کیا ہیں، اور آپ کو آخر کار اپنی جبلت کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔‘انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ عراق اور افغانستان کے بارے میں ’غلط ہو سکتے ہیں‘ لیکن انھوں نے اصرار کیا: ’مجھے وہی کرنا پڑا جو میں نے صحیح سمجھا۔‘ان فیصلوں کے نتیجے میں کچھ لوگوں کی جانب سے انھیں ناپسند کیے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر بلیئر نے کہا: ’میرے نزدیک مسیحی عقیدے کے بارے میں سب سے زیادہ طاقتور چیز، یا شاید آپ عام طور پر کسی بھی مذہبی عقیدے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں، یہ ہے کہ آپ کسی بڑی اور وسیع چیز کو خود سے زیادہ اہم تسلیم کرتے ہیں۔’مجھے اکثر لگتا ہے کہ میرے اور مثال کے طور پر کسی مسلمان کے درمیان زیادہ قدریں مشترک ہوں گی کیونکہ وہ بھی صاحبانِ ایمان ہیں۔ ایسا اْن لوگوں کے ساتھ نہیں ہو گا جو (عقیدے کو) صرف دکھاوے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘جب ان سے احساس جرم کے بارے میں پوچھا گیا تو بلیئر نے کہا: ’جب آپ سے کچھ غلط ہوا ہو تو آپ کو اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں سیاست میں آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو لوگ آپ کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔‘لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا: ’سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جو درحقیقت بہت پیچیدہ ہے، اس میں لوگ سادگی کی تلاش کرتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ لوگوں کو ’کم از کم اس پیچیدگی کی حقیقت کا احترام کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ اسے کسی سادہ نعرے تک محدود کر دیا جائے۔‘’کیونکہ جن سیاستدانوں پر آپ کو واقعی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے وہ ایسے لوگ ہیں جو آ کر آپ کو سادہ نعرے سناتے ہیں۔‘