یوکرین جنگ: کیئو کے عام شہری جو روسی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں

کیئو ،فروری۔یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں ایک روڈ بلاک پر اپنی رائفل کو مضبوطی سے تھامنے والے شخص کی عمر لگ بھگ 60 کی دہائی کے اوائل میں ہو گی۔ہم نے اسی طرح جینز اور ٹرینرز میں دوسرے مردوں کو پوزیشن سنبھالتے ہوئے دیکھا حالانکہ ان کے پاس بحران کے اس لمحے میں دشمن کی نظروں سے بچنے کی آسائش تو ممکن نہیں تھی۔اس لیے جگہ جگہ عارضی روڈ بلاکس لگائے گئے ہیں۔ہم جمعے کے دن کیئو کی گلیوں میں نکلے تو ہمارا سامنا ایسے لوگوں سے ہوا جنھوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے لگائی جانے والی آواز پر لبیک کہا تھا۔ہمیں کسی بھی حملہ آور کا راستہ روکنے کے لیے عسکری اہمیت کے حامل زاویوں پر کھڑا ایک ٹریکٹر اور ایک ڈیلیوری ٹرک بھی نظر آیا۔دوسرے شہروں میں بھی اس قسم کی تیاریوں کی خبریں ہیں کہ سٹیل کا کام کرنے والے جگہ جگہ سڑکوں پر نئی رکاوٹیں لگا رہے ہیں اور اپنے لیے خود ساختہ دفاع تیار کر رہے ہیں۔جبکہ ایک سلائی فیکٹری میں جہاں عام طور پر یونیفارم سلتے ہیں وہاں ریت رکھنے کے لیے تھیلے بنائے جا رہے ہیں۔ملک بھر میں محب وطن یوکرینی باشندے اپنی اپنی طور پر تیاریاں کر رہے ہیں اور یہ امید کر رہے ہیں کہ ان کی اجتماعی کوشش ماسکو کی فوجی طاقت کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ رنگ لائے گی۔ان عجلت والے اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ پیش قدمی کرنے والی روسی فوج جلد ہی ان کے سامنے ہوگی۔ بہت سے لوگوں کو اگر ڈر ہے تو یہ کہ نہ جانے کب ان کا روسی فوج سے سامنا ہو جائے۔دارالحکومت کے قلب میں سڑکیں زیادہ تر سنسان ہیں۔ چرچ کی گھنٹیوں سے لطف اندوز ہونے والے بہت کم لوگ ہیں۔لیکن جس ایک شخص نے اس تاریک ترین گھڑی میں سکون کی آوازیں سنی ہوں گی وہ یوکرین کے صدر ہیں۔ولادیمیر زیلنسکی بذات خود اپنے مشن پر کاربند ہیں اور وہ اس عظیم شہر کے یادگار مقامات کا دورہ کر رہے ہیں، یوکرین کے لوگوں کو ثابت قدمی کے ویڈیو پیغامات بھیج رہے ہیں اور ڈٹے رہنے اور لڑنے کا عہد کر رہے ہیں۔اس وسیع ملک میں بہت سے خاندان اپنے پیاروں کو عجلت میں بنائی گئی فلمیں بھیج رہے ہیں جس میں وہ یہ یقین دلا رہے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔لیکن صدر کی ویڈیوز کی طرح ان کی ویڈیوز میں کوئی متاثر کن تعمیراتی پس منظر نہیں۔ اس کی بجائے آپ کو زیر زمین نئے وجود نظر آئیں گے جسے برداشت کرنے پر وہ مجبور ہیں۔ وہاں عارضی بستر، سامان کے ڈھیر اور خوفزدہ پالتو جانور بھی نظر آئیں گے۔اب بہت سے لوگوں کے لیے کار پارکنگ، تہہ خانے، میٹرو سٹیشن ہی ان کے گھر ہیں۔روزمرہ کی زندگی اْلجھ کر رہ گئی ہے کیونکہ وہ اپنے آنے والے روسی قابضین کی آمد کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔بہر حال اس نئی زندگی کے درمیان ایک عارضی زیر زمین تہہ خانے میں امید پیدا ہوئی ہے یعنی گذشتہ رات ایک ایسی دنیا میں ایک بچہ پیدا ہوا جو بمشکل 36 گھنٹوں کے اندر پہچان سے باہر ہے۔یہ وحشیانہ تنازع پرانے زمانے کی کوئی بھیانک چیز لگتی ہے جس کا احساس ان لوگوں کو براہ راست ہو رہا ہے جو وہاں ہیں اور بہت سے لوگ خوف کے عالم میں دور سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ایک خود مختار قوم پر حملہ جو 20 ویں صدی کی تاریخ کا ایک سنگین موضوع رہا ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہے۔اور اسی دوران ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں بظاہر چین کے تاریخی تیانامن سکوائر جیسے ایک لمحے کو دکھایا گیا ہے۔اس میں ایک تنہا شخص کو ایک ٹینک کے گرد چکر لگاتے دیکھا جا سکتا ہے جو کہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ نہ تو سنہ 1989 ہے اور نہ ہی چینی ٹینک ہے بلکہ یہ 2022 میں جنگ کا ایک روسی آلہ ہے۔ایک اور ویڈیو جو میں نے ابھی دیکھی ہے وہ اتنی سفاک ہے کہ بیان سے قاصر ہے۔ تو میں اسے بیان کرنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔لیکن میں آپ کو اتنا تو بتاتا چلوں کہ یہ انسانی جان کی قیمت کو خوفناک تفصیل کے ساتھ ظاہر کرتا ہے جو کہ ولادیمیر پوتن کی جانب سے اپنے پڑوسی کی فوج پر فضائی حملے کا نتیجہ ہے۔برطانیہ کی وزارت دفاع کا تازہ ترین جائزہ ہے کہ روسی فوج کو بھی کافی نقصان ہوئا ہے، اس سے کہیں زیادہ جتنا کہ کریملن نے اندازہ لگایا تھا یا وہ تسلیم کرے گا۔دریں اثنا فیس بک پر ایک طویل پوسٹ میں وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف نے فوجیوں، پولیس، طبی عملے اور ہتھیار اٹھانے والے شہریوں کی تعریف کی ہے۔ریزنیکوف نے لکھا: ‘آس پاس نظر ڈالیں (تو پتا چلتا ہے کہ) بہت سے لوگوں نے آخر کار خوف پر فتح حاصل کر لی ہے اور کریملن کو چیلنج کرنے کی ہمت کی ہے۔انھوں نے مزید کہا: ‘وہ لوگ کہاں ہیں جنھوں نے دو گھنٹے میں کیئو پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا تھا؟ میں انھیں نہیں دیکھ رہا ہوں۔’انھوں نے کہا کہ چیلنجز ابھی باقی ہیں لیکن دنیا بھر کے لوگ اس کو بغور دیکھ رہے ہیں اور ‘جو امداد تین دن قبل تک ناممکن نظر آ رہی تھی وہ آنے لگی ہے۔’انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہماری فوج اور ہماری لوگوں کے بغیر یورپ کبھی بھی محفوظ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے بغیر یورپ (کا وجود) رہ ہی نہیں سکتا۔’ہفتے کے شروع میں جب ایسا لگتا تھا کہ آخر کار حملہ ہو کر رہے گا تو ہمیں کیئو میں خوش و خرم مدافعت دیکھنے کو ملی۔بادی النظر میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ پوتن مشرق میں سینکڑوں میل دور ڈونباس کے علاقے میں اپنا کنٹرول بڑھانا چاہتے ہیں۔لیکن اب ہمیں پتا چلا کہ یہ اس سے کہیں بڑا منصوبہ تھا۔منگل کو ہم نے تاریخ کے طلبا کے ایک گروپ کو ایک پل پر جمع ہوتے اور اپنا قومی گیت گاتے دیکھا، جن میں سے کچھ نے یوکرین کے نیلے اور پیلے پرچم کو کندھوں پر لپیٹ رکھا تھا۔ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں اور ان میں ایک خوشگوار اتحاد تھا، مایوسی نہیں۔ایک بنکر میں نئی زندگی کی آمد کی خوشی کے ساتھ ساتھ شہر کی سڑکوں کے نیچے انسانی مہربانیوں کی کہانیاں بھی ہیں۔میں ماسکو کی جارحیت کے حجم اور پیمانے کی دھند چھٹنے کے بعد جمعرات کی صبح ایک میٹرو سٹیشن کے باہر سیلز مینیجر مارک سے ملا۔وہ پہلے دھماکوں کی آواز سے بیدار ہوئے اور پھر انھوں نے اپنے پڑوسیوں کو ان کی عمارتیں خالی کرنے میں مدد کی۔انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ اب ان کے چند بھائیوں اور بہنوں نے مل کر زیر زمین گروپ بنا لیا ہے۔کیئو کے حکام نے کسی بھی روسی پیش قدمی کو پسپا کرنے کے لیے پیٹرول بم بنانے میں ان کی ہمت افزائی کی ہے۔لیکن فی الحال مارک کی عارضی فوج محاذ پر نہیں بلکہ پلیٹ فارم کے کنارے پر ہے۔انھوں نے مجھے بتاتا ہے کہ وہ اپنے نئے ماحول میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور خاص طور پر ایسے لوگوں کی تلاش کر رہے ہیں جو اکیلے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ ‘ان میں سے بہت سے، لوگوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ لیکن میں اپنے دل میں خوشی سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں ہر ایک کو یوکرین پر یقین ہے۔’انھوں نے بتایا کہ کل رات انھوں نے گیت گائے۔ ‘فتح ہوگی اور ہر کوئی اس فتح میں اپنا حصہ ڈالے گا۔’کیئو ایک ایسا شہر ہے جو دباؤ میں ہے اور خوفناک حملے کی زد میں ہے۔لیکن یہ اپنے جوش و ولولے اور طاقت میں متحد محسوس کرتا ہے اور ان میں زندہ رہنے کا ایک ناقابل تسخیر عزم ہے۔

Related Articles