یوکرین: دارالحکومت کیف پر روسی حملوں کا سلسلہ جاری

کیف،مارچ۔یوکرین کا کہنا ہے کہ کیف کے مضافاتی علاقے ارپن سے باہر دھکیل دینے کے باوجود روسی افواج کے دارالحکومت پر حملے جاری ہیں۔ ادھر ترکی کے شہر استنبول میں فریقین کے درمیان آج مذاکرات کے ایک اور دور کی توقع ہے۔یوکرین کے مختلف شہروں پر روسی حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور 29 مارچ منگل کو بھی طلوع فجر سے پہلے ہی فضائی حملوں کے لیے سائرن بجتے سنے گئے ہیں۔ یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ روسی حملوں کی وجہ سے کچھ شہروں سے نکلنے والے راستے بند ہو کر رہ گئے ہیں۔یوکرین کا دعوی ہے کہ دارالحکومت کییف کے مضافات میں واقع شہر ارپن سے روسی فوجیوں کو باہر دھکیل دیا گیا ہے۔ روس نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا، تاہم اس کا کہنا ہے کہ ” لڑائی ابھی بھی جاری ہے اور خطے کے اس حصے میں تحفظ سے متعلق بات کرنا ابھی جلد بازی ہو گی۔” یوکرین کی مسلح افواج کے سربراہ نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی افواج نے ملک بھر میں رہائشی علاقوں پر میزائل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایندھن کے بعض ذخائر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ "لوجیسٹکس کو پیچیدہ بنانے” کے ساتھ ہی "انسانی بحران کے حالات پیدا کیے جا سکیں۔” یوکرینی فوج کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ روسی یونٹ دارالحکومت کییف، جنوب مشرق میں زفوریزہیا، جنوب میں کھیرسن اور مشرق میں خارکیف میں عام شہریوں کو لوٹ مار، اغوا اور یرغمال بنا کر انہیں دہشت زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان دعووں کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ 24 فروری کو ان کے ملک پر روسی حملے کے بعد سے یوکرین نے بعض فتوحات حاصل کی ہیں تاہم اس کے باوجود حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ انہوں نے رات کے وقت اپنے ٹیلی گرام چینل پر قوم سے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ روسی افواج کو کییف کے مضافاتی علاقے ارپن میں پسپا کر دیا گیا ہے۔تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ دارالحکومت کییف کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں لڑائی جاری ہے اور کییف کے شمالی مضافاتی علاقوں پر روسی فوجیوں کا کنٹرول اب بھی برقرار ہے۔ شیرنیف، سومی، ڈونباس اور دیگر جنوبی علاقوں میں صورتحال "بہت مشکل” ہے۔ان کا کہنا تھا، "روسی فوجیوں نے کییف کے شمالی علاقے کو اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے۔ ان کے پاس وسائل اور افرادی قوت ہے۔ وہ اپنی تباہ شدہ یونٹس کو دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔”زیلنسکی کا کہنا تھا کہ یورپ روسی تیل کی سپلائی کو اپنی پابندی کی فہرست میں اسی صورت میں شامل کر سکتا ہے، جب روس اپنی جنگی کوششوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرے۔ تاہم انہوں نے کہا، "اس کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔”دو ہفتوں سے بھی زائد عرصے میں پہلی بار روس اور یوکرین کے وفود جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے ترکی کے شہر استنبول پہنچ گئے ہیں۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ منگل کو شروع ہونے والے مذاکرات میں اس کی اولین ترجیح جنگ بندی پر بات چیت کرنا ہے۔تاہم فی الوقت جو صورت حال ہے اس میں ان مذاکرات سے کسی خاص پیش رفت کی توقع کم ہے۔ادھر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے الگ الگ فون پر بات کی ہے اور دونوں رہنما مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ترک صدر نے اس سلسلے میں مزید تفصیل نہیں بتائی تاہم کہا کہ وہ فریقین کے درمیان بات چیت سے قبل خود پہلے یوکرین اور روسی وفود سے ملاقات کریں گے۔یوکرین کے وزیر خارجہ دمتریو کولیبا نے کہا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ تازہ ترین امن مذاکرات سے سب سے زیادہ توقع جنگ بندی کی کرتا ہے۔اس موقع پر زیلنسکی نے روس پر مزید سخت پابندیوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یورپ روسی تیل کی سپلائی کو اپنی پابندیوں کی فہرست میں اسی صورت میں شامل کر سکتا ہے، جب روس اپنی جنگی کوششوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرے۔ انہوں نے کہا تاہم، "اس کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔”ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ روس کو ان مذاکرات میں کسی خاص پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔

 

Related Articles