یورپی یونین: بجلی کی بڑھتی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش
برسلز،ستمبر۔یورپی یونین کے وزرائے توانائی برسلز میں ایک ہنگامی میٹنگ میں صارفین اور تاجروں کو توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے بچانے کے طریقہ کار پر غور و خوض کر رہے ہیں۔ کسی متفقہ حل پر ان کا پہنچنا تاہم مشکل دکھائی دیتا ہے۔یورپی یونین کے وزرائے توانائی برسلز میں ایک ہنگامی میٹنگ کر رہے ہیں، جس میں صارفین اور تاجروں کو توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے بچانے کے طریقہ کار پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ کسی متفقہ حل پر ان کا پہنچنا تاہم مشکل دکھائی دیتا ہے۔یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے وزرائے توانائی جمعے کے روز برسلز میں یکجا ہوئے ہیں تاکہ موسم سرما کی آمد سے قبل بجلی کی آسمان چھوتی قیمتوں پر قابو پانے کا کوئی راستہ تلاش کر سکیں۔یہ میٹنگ ایسے وقت ہو رہی ہے جب پچھلے 12 ماہ میں یورپ کو روسی گیس کی ترسیل میں تقریباً 90 فیصد کی کمی آ چکی ہے جبکہ یوکرین پر ماسکو کے فوجی حملے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے نتیجے میں بجلی کی سپلائی کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
کن تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے؟یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے اس یورپی بلاک میں صارفین اور تجارت پیشہ افراد کے لیے بجلی کی قیمتوں کی ایک حد مقرر کرنے کے حوالے سے کئی تجاویز پیش کی ہیں۔ان تجاویز میں روسی گیس کی قیمت طے کر دینا، گیس کے بغیر بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے لیے منافع کی حد مقرر کر دینا اور پورے یورپی یونین میں بجلی بچانے کے اقدامات کو نافذ کرنا شامل ہیں۔فان ڈیئر لائن نے روسی گیس بند ہو جانے کے سبب سپلائی کے مسئلے کا سامنا کرنے والی بجلی کمپنیوں کو ہنگامی مالی مدد فراہم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔اگر یورپی یونین میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو کرنے کی تجاویز پر وزرائے توانائی متفق ہوجاتے ہیں تو یورپی کمیشن اسے اگلے ہفتے کے اوائل تک قانونی تجویز کے طور پر آگے بڑھا سکتا ہے۔گیس کے بغیر بجلی پیدا کرنے والوں کے منافع کو محدود کرنے کی وجہ یورپ میں بجلی کی قیمت اسے پیدا کرنے کے لیے توانائی کے ضروری سب سے مہنگے وسائل کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ اونچی قیمتوں کا تعین ان بجلی کارخانوں کے ذریعہ طے کیا جا رہا ہے، جو گیس استعمال کرتے ہیں۔ سن 2021 کے اوائل سے اس کی لاگت میں اب تک 12 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔فان ڈیئر لائن نے بدھ کے روز کہا کہ اس کی وجہ سے قابل تجدید بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں، جو بجلی پیدا کرنے کے لیے گیس کا استعمال نہیں کرتیں، کافی منافع کما رہی ہیں۔خبروں کے مطابق تاہم ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنی ونڈ یورپ کے سی ای او جائلس ڈکسن نے کہا کہ یورپ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے بیشتر کارخانو ں نے اپنی بجلی فروخت کرنے کی شرح مقرر کر رکھی ہے اور وہ کوئی بہت زیادہ منافع نہیں کمارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والے ایسے کارخانوں کو کسی طرح کے ٹیکس سے مستشنیٰ رکھا جانا چاہیے اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل یہ ضرور خیال رکھا جانا چاہیے کہ اس سے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری متاثر نہ ہونے پائے۔فرانس، جو اپنی بجلی کا بہت بڑا حصہ جوہری کارخانوں سے حاصل کرتا ہے، نے بھی سوال کیا ہے کہ کیا منافع کی حد کا اطلاق بجلی پید ا کرنے والی تمام کمپنیوں پر ہو گا۔