ہمیشہ سے غیر یقینی مدت کے لیےرہتی ہے ہندوستانی ٹیم کی کپتانی

نئی دہلی، دسمبر۔ وراٹ کوہلی کو ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کے بعد یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستانی ٹیم کی کپتانی ہمیشہ غیر یقینی مدت کے لئے رہتی ہے۔ جب آپ اس عہدے پر ہوتے ہیں تو آپ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آپ کو کسی بھی وقت اس عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان نے اعداد و شمار کے مطابق اپنے سب سے کامیاب ون ڈے کپتان کو کپتانی سے ہٹا دیا ہے۔ 33 سالہ کپتان نے تین ماہ قبل ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ٹیم کی کپتانی چھوڑنے کے بعد ون ڈے اور ٹیسٹ میں کپتانی جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور تو اور یہ تبدیلی طویل المدتی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کی گئی کیونکہ نیا کپتان پرانے کپتان سے ڈیڑھ سال بڑا ہے۔ہندوستان میں اس سے قبل اس عمر کے کرکٹر کو کپتانی سونپی گئی تھی – انیل کمبلے کو 37 سال کی عمر میں کپتانی سونپی گئی تھی۔ اگرچہ وہ فیصلہ بھی طویل المدتی نہیں تھا لیکن اس کے پیچھے بہت سی منطقی وجوہات تھیں۔ راہل ڈراوڑ کے استعفی کے بعد یہ تقرری ضروری ہوگئی اور ایم ایس دھونی شارٹ فارمیٹ کے کرکٹ کی کپتانی کررہے تھے۔ ایک بات طے ہے کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے ذریعہ کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی کرکٹ میں کپتانی میں کسی بھی تبدیلی کی تصدیق بورڈ کے صدر کے ذریعہ کی جانی چاہئے۔ تو ابھی سلیکٹرز اور بی سی سی آئی کے صدر واضح طور پر مانتے ہیں کہ ہندوستانی کرکٹ میں سابق کپتان، جن کی قیادت میں ہندوستان نے ہر دو میچ ہارنے کے مقابلے میں پانچ میچ جیتے ہیں اور جس کی قیادت میں ٹیم دو آئی سی سی ٹورنامنٹ کے فائنل اور سیمی فائنل میں گئی، سے بھی ایک بہتر کپتان ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سلیکٹرز اور بی سی سی آئی نے اعداد و شمار کے علاوہ کسی اور طریقے سے معیار طے کیا ہو۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کے علاوہ تمام ٹورنامنٹس میں، آپ ہندوستانی ٹیم کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے سیمی فائنل میں داخلہ کرنے کی امید کرتے ہیں۔ وراٹ کوہلی کی کپتانی میں ٹیم بڑی آسانی کے ساتھ ناک آؤٹ مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔ وراٹ کی قیادت میں، ہندوستان نے اپنے دو سب سے بڑے میچ ونر، دو انگلیوں والے اسپنرز کوٹیم سے باہر کرنے کا کا جرات مندانہ قدم اٹھایا، لیکن انہوں نے اس میں دیر کردی تھی۔ سال 2017 کی چیمپئنز ٹرافی میں وہ واحد ایسی ٹھی تی جس میں کلائی اسپنر نہیں تھا۔ اس کے لئے ذمہ دار کون تھا، یہ کبھی معلوم نہیں ہوسکے گا۔ 2019 کا ورلڈ کپ زیادہ مایوس کن تھا۔ 2018 کے اوائل میں، اجنکیا رہانے کو ہندوستان کا نمبر4 ماناجاتا تھا۔ تاہم، رہانے کے بارے میں دھونی کا اندازہ تھا کہ وہ پاور پلے اور گیند کے پرانے ہونے کے بعد جدوجہوکرتے ہیں۔ ان کی جگہ امباتی رائیڈو ٹیم میں آئے لیکن ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے ایک سادہ سیریز کے بعد انہیں ڈراپ کردیا گیا۔ ورلڈ کپ کے دوران، ہندوستانی ٹیم کے پاس ایک بیک اپ آل راؤنڈر تھا جس کے پاس ون ڈے میچ میں اننگ کو اینکرکرنے کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ساتھ ہی ٹیم میں ایک وکٹ کیپر بلے باز، جو پہلی پسند نہیں تھا۔ ٹیم کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ایک اہم میچ میں تمام تر ذمہ داری اس مڈل آرڈر پر آ گئی۔ بلاشبہ سلیکٹرز اور بی سی سی آئی کو اس طرح کی کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ویراٹ نے پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی چھوڑ کر اپنی قسمت کا فیصلہ کرلیاتھا۔ یہ درست فیصلہ ہے کہ ایک ہی شخص محدود اوورز کی ٹیم کی قیادت کرے۔ ٹی 20 فارمیٹ میں ویراٹ کی کپتانی مشکوک تھی۔ آئی پی ایل میں بطور کپتان ان کا ریکارڈ کچھ خاص نہیں تھا اور ٹیم انڈیا میں کھلاڑیوں کے کردار واضح نہیں تھے۔ روہت کی ٹیم میں اپنے کھلاڑیوں کے لئے واضح کردار اور منصوبے ہیں اور وہ ڈیٹا کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ویراٹ جذبات پر چلتے ہیں جبکہ روہت جذبات کو جگہ ہی نہیں دیتے ہیں۔ اگر اس فیصلے کے پیچھے یہی منطق تھی تو 2019 کے بعد یہ فیصلہ کرنے میں بی سی سی آئی کو ڈھائی سال کیوں لگے؟ ویراٹ کے بلے کا نہ چلنا شاید اس فیصلے کے پیچھے کا سبب ہوسکتا ہے۔ جو یوراج سنگھ کے اس اشتہارمیں کہی گئی بات کودرست ثابت کرتا ہے۔ ’’جب تک بلاچل رہا ہے دنیاآپ کی ہے۔‘‘ جب 2017 میں دھونی کا بیٹ نہیں چل رہا تھا تو ان کے ساتھ بھی ایسی ہی صورتحال تھی لیکن تب دھونی خود ہی اپنے عہدے سے ہٹ گئے اورویراٹ کے ساتھ جب ایسا ہوا تو انہیں اپنی ون ڈے کپتانی پر یقین تھا، خود پر یقین تھا اور انہوں نے اس عہدے کو چھوڑنے سے انکارکردیا۔ یہ کبھی آسان نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ ویراٹ کپتانی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، جس کی وجہ سے ٹیم کے نئے کپتان کو کپتانی میں کچھ تکلیف ہوسکتی ہے۔ یہ انتہائی اہم کھلاڑی ہیں بغیر کسی شک کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ٹیم کے ماحول کی کامیابی جس پر ویراٹ کو فخر ہے، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ یہاں سے کتنی پختگی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ہاں، ہم ایک دوسرے کے عزائم کا احترام کرتے ہیں، اب معاملہ اتنے تک ہے کہ اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ہم کتنے پختہ ہیں۔ کوچ راہل دراوڑ ماضی میں بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچارہوچکےہیں جب بی سی سی آئی نے آخری بار ہندوستانی کپتان کو برطرف کیا تھا۔ تاہم اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے۔ ٹیسٹ کپتانی ابھی بھی ویراٹ کے پاس ہے۔ ویراٹ کے پاس اب بھی شاندار ریکارڈ اور فٹنس ہے۔ کپتان ویراٹ نے ماضی میں ایک بلے باز کے طور پر روہت شرما کی بہت حمایت کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب ویراٹ ٹیم میں ایک بلے باز کے طور پر ہوں گے تو روہت بھی ان کی حمایت کریں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان تمام فارمیٹس میں ایک بے حد کامیاب ٹیم ہے، چاہے وہ ٹی 20 ورلڈ کپ سے سپر 12 میں باہرہوگئے ہوں۔ یہ بھی اہم ہے کہ روہت کوخاطرخواہ میچ اور وقت ملے تاکہ وہ 2023 کے ورلڈ کپ کے لیے ایک مضبوط ٹیم بنا سکیں، پھر بھی یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کو صحیح طریقے سے سنبھالنے کی ضرورت ہے اور دراوڑ، ویراٹ اور روہت اس پر قابو پا سکتے ہیں۔

Related Articles