ہرات شہر میں طالبان کی جانب سے مبینہ اغواکاروں کی لاشوں کو ’عبرت کے لیے‘ سرعام لٹکانے کی اطلاعات
ہرات،ستمبر۔افغانستان کے شہر ہرات سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے سنیچر کو اغوا کے مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث چار ملزمان کی لاشیں مختلف عوامی مقامات پر لٹکا دیں۔ہرات کے ڈپٹی گورنر مولوی شیر احمد ایمار کے حوالے سے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ طالبان نے ان تمام مبینہ اغوا کاروں کا پیچھا کر کے انھیں ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک کیا ہے۔انھوں نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ان لاشوں کو ہرات کے مختلف مرکزی چوراہے پر اس لیے لٹکایا تاکہ یہ دوسرے اغواکاروں کے لیے عبرت کا نشان بن سکیں۔‘یہ انتہائی ہولناک مظاہرہ طالبان کی مذہبی پولیس کے سربراہ کے بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں واضح کیا گیا تھا کہ افغانستان میں اب سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزائیں دوبارہ دی جائیں گی۔طلوع نیوز نے طالبان حکام کے حوالے سے بتایا کہ ان افراد نے ’ایک تاجر اور اس کے بیٹے کو اغوا کیا‘ اور ان کے اہلِ خانہ سے رقم کا مطالبہ کیا۔ خبروں کے مطابق ایک لاش کو کرین کے ذریعے شہر کے مرکزی علاقے میں لٹکایا گیا تھا۔ایک مقامی دکاندار وزیر احمد صدیقی نے ایجنسی کو بتایا کہ چار لاشوں کو چوک میں لایا گیا، ایک کو لٹکا دیا گیا جبکہ دیگر تین لاشوں کی شہر کی مختلف چوکوں پر نمائش کی گئی۔بی بی سی کی جانب سے آزادانہ طور پر ان افراد کے قتل کے محرکات سے متعلق تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔تاہم سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پک اپ ٹرک کے پیچھے خون آلود لاشیں موجود ہیں اور ایک لاش کو کرین کے ذریعے لٹکایا گیا ہے۔ایک اور ویڈیو میں ایک شخص کو کرین سے لٹکا دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے سینے پر لکھا ہوا ہے اغواکاروں کو ایسے سزا دی جائے گی۔ 15 اگست کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ان کا موجودہ دور اقتدار ماضی کے نسبت سخت نہیں ہو گا۔ البتہ ملک کے مختلف حصوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق اطلاعات سامنے آئی ہیں۔خبروں کے مطابق گذشتہ روز طالبان حکومت میں جیل خانہ جات کے انچارج ملا نورالدین ترابی نے بتایا تھا کہ ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں ’سکیورٹی کے لیے ضروری ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اب یہ سزائیں سرعام نہیں دی جائیں گی جیسا کہ 90 کی دہائی میں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں ہوتا تھا۔تاہم انھوں نے ماضی میں سرعام پھانسی کی سزاؤں پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہییں۔‘امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کو کہا کہ امریکہ نے ایسی اطلاعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جن میں دوبارہ ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزاؤں کی واپسی کی بات کی گئی ہے۔ادھر طالبان کے وزیر دفاع اور افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب نے تسلیم کیا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی جانب سے شہریوں کے ’انتقامی قتل‘ کے واقعات پیش آئے ہیں۔گذشتہ ہفتے ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا تھا کہ طالبان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ اور احترام کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا دینوشیکا دیسانیاکے نے کہا تھا کہ ہم نے تشدد کی لہر دیکھی ہے جس میں بدلے کے لیے حملے، خواتین پر پابندیاں، اور مظاہروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہیں۔