گیان واپی معاملہ:کوئی بھی ایکٹ مقدمے کی سماعت میں مانع نہیں

وارانسی،ستمبر۔اترپردیش کے ضلع وارانسی میں گیان واپی مسجد کے احاطے میں ماں شرنگا گوری و دیگر دیوی دیوتاوں کی پوجا کرنے کی اجازت دینے کی عرضی کے خلاف انجمن اسلامیہ مسجد کمیٹی کی سول پروسیز کوڈ کے آرڈر 7رول 11 کے تحت داخل کی گئی عرضی کو ڈسٹرکٹ کورٹ نے یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ کوئی بھی ایکٹ اس مقدمے کی سماعت میں مانع نہیں ہے۔اور اگلی سماعت کی تاریخ 22ستمبر طے کی ہے۔ڈسٹرکٹ جج اجئے کرشنا وشویش نے اپنے آرڈر میں کہا کہ مدعی کی عرضی پر سماعت کرنے میں کوئی بھی ایکٹ بمشول عبادت گاہوں سے متعلق 1991کا ایکٹ،یوپی شری کاشی وشوناتھ ٹیمپل ایکٹ1983 مانع نہیں ہے۔اس کے ساتھ ہی مقدمے کی سماعت کے جواز کو چیلنج کرنے والی کمیٹی کی عرضی کو خارج کردیا گیا اور اب اس معاملے کی وارانسی کی کورٹ میں سماعت ہوگی۔کمیٹی نے عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سرول پروسیز کوڈ کے آرڈر 7رول 11 کے تحت عدالت میں عرضی داخل کر کے مسجد کے احاطے میں پوجا کی اجازت طلب کرنے والی عرضی کی سماعت کے جواز پر ہی سوال اٹھایا تھا جسے کورٹ نے خارج کردیا۔ہندو خواتین کے ذریعہ عبادت کی اجازت طلب کرنے والی عرضی پر سماعت میں 1991 عبادت گاہوں سے متعلق خصوصی ایکٹ کے مانع ہونے کے حوالے سے عدالت نے کہا ہے کہ چونکہ مسجد احاطے میں 15اگست 1947 کے بعد بھی ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی اس لئے یہ ایکٹ یہاں پر نافذ نہیں ہوتا اور کیس کی سماعت سے عدالت کو پابند نہیں کرتا ہے۔اس ضمن میں عدالت نے واضح موقف اختیار کرتےہوئے تفصیل سے لکھا ہے کہ’ موجودہ کیس میں مدعی ماں شرنگا گوری اور دیگر دیوتاؤں کی پوجا کی اجازت مانگ رہا ہے۔ اس لئے سول کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ کرے۔مزید برآں یہ کہ عرضی گذاروں کی درخواست کے مطابق وہ متنازع مقام پر ماں شرنگار گوری،لارڈ ہنومان، بھگوان گنیش کی لگاتار 1993 تک پوجا کرتے رہے ہیں۔1993 کے بعد اترپردیش ریگولیٹری کے تحت مذکورہ بلا بھگوانوں کی سال میں ایک بار پوجا کرنے کی اجازت دی گئی۔اس طرح عرضی گذاروں کے مطابق وہ 15اگست 1947 کے بعد بھی وہاں پوجا کرتے رہے ہیں۔لہذا اس مقدمے میں 1991کا عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ اس مقدمے کی سماعت سے عدالت کو پابند نہیں کرتا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ اس بات کو اک دم واضح کرتا ہے کہ ملک میں موجود تمام مذہبی مقامات 15اگست 1947 کے اپنی اصل حالت میں باقی رہیں گے اور اسے کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس نکتے کے حوالے سے عدالت نے لکھا ہے کہ عرضی گذار(ہندو خواتین) متنازع مقام پر صرف عبادت کا حق دئیے جانے کا دعوی کررہی ہیں اور وہ صرف ماں شرنگار وری اور دیگر دیوی دیوتاؤ ں کی پوجا کرنا چاہ رہی ہیں۔اور اس کے پیچھے ان کا دعوی ہے کہ 1993 تک وہ اس کی عبادت کرتی رہی ہیں لہذا ان کو اس کی اجازت دی جائے۔عدالت نےآگے اپنے آرڈر میں زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مدعی متنازع مقام کی ملکیت کا دعوی نہیں کررہا ہے کیونکہ انہوں نے اس مقام کو مندر میں تبدیل کئے جانے کا دعوی نہیں کیا ہے۔اور اسی وجہ سے عبادت گاہوں سے متعلق قانون یہاں پر نافذ نہیں ہوا ہے۔اپنے فیصلے میں عدالت نے آگے مزید لکھا ہے کہ وقف ایکٹ کے سیکشن 85 کے تحت پابندی بھی اس معاملے میں بے اثر ہوجاتی ہے کیونکہ یہ ایکٹ بھی اس معاملے میں نافذ نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ مدعی غیر مسلم اور متنازع ملکیت پر بنائے گئے مبینہ وقف کے لئے اجنبی ہیں۔ اور مقدمے میں جس راحت کا دعوی کیا گیا ہے وہ وقف ایکٹ کی دفعات 33،35،47،48،51،54،61،64،67،72،اور 73کے دائرے میں نہیں آتی ہے۔اس طرح سے وقف ایکٹ 1995 کا سیکشن 85 مقدمے کی سماعت میں مانع نہیں ہے۔عدالت نے آخر میں اپنے فیصلے میں یوپی شری کاشی وشوانتھ ٹیمپل ایکٹ 1983 کے حوالے سے بھی لکھا ہے کہ یہ ایکٹ بھی اس مقدمے کی سماعت میں مانع نہیں ہے۔عدالت نے مانا ہے کہ مندر کے احاطے کے اندر یا باہر قائم مورتیوں کی پوجا کےحق کا دعوی کرنے والے مقدمے کے ضمن میں یوپی شری کاشی وشوناتھ مندر ایکٹ 1983 کوئی پابندی عائد نہیں کرتا ہے۔ملحوظ رہے کہ پہلے اس مقدمے کی سماعت سول جج(سینئر ڈویژن) کی عدالت میں ہورہی تھی جس نے گیان واپی کا ویڈیو گرافی سروے کرانے کی ہدایت دی تھی۔ویڈیو گرافی سروے کے درمیان حوض کے درمیان ملے فوراے کو ہندو فریق نے شیولنگ بتایا تھا اور عدالت نے ہندو فریق کے اس دعوی کو منظور کرتے ہوئے حوض کو ڈھکنے کا آرڈر دے دیا تھا۔اسے دیکھ کر مسلم فریق سپریم کورٹ پہنچا تھا جہاں سے عدالت نے اس مقدمے کو ڈسٹرکٹ کورڈ کو ٹرانسفر کردیا تھا۔

 

 

Related Articles