گل تو بن گئے بکھرنے کے لئے،اب آتش گل بنو تو بات بنے !
احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
پھر اس کے بعد یہ زبان کٹتی ہے تو کٹ جائیہمیں جو کچھ بھی کہنا ہو اعلی الاعلان کہیں گے !اب وہ وقت نہیں رہا کہ ہم ڈھکی چھپی بات کہیں یا ڈپلومیٹک بنیں، کیونکہ آج ہر مسلمان کے سر پہ سنگھیوں کی ننگی تلواریں لٹکی ہوئی ہیں،چاہے وہ محلوںمیں بیٹھے مسلم سیاستداں اور امیر طبقہ ہو یا چھونپرپٹی میں جی رہے غریب مسلمان ہوں۔ایک کے بعد ایک، سب کانمبر آنے والا ہے، یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے۔یقین نہ آئے تو ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں!گجرات فساد سے لے کر دہلی اور تریپورا فساد ،ہر بار ہر جگہ مسلمانوں ہی کی خون سے اٹی لاشیں ملیں گی۔مسلم حاملہ خواتین کے ہی پیٹ چیرے گئے ہیں، مسلم بہن بیٹیوں ہی کی عزتیں پامال کی گئیں اور مسلمانوں کے ہی آنگن میں مسلم نوجوانوں کی لاشوں کے انبار لگادئے گئے ہیں!باوجود ہم نے ان فسادات سے کچھ نہیں سیکھا، نہ ہی خود کو ذہنی ، جسمانی ،معاشی، تعلیمی کسی لحاظ سے مضبوط کرنے کی جانب پہل کی۔اپنے حالات پر ذرا غور و فکر کریں ! آج حکومت کی نظر میں مسلمان دہشتگرد ہے ، بالخصوص ڈاڑھی ٹوپی پہناہوا مسلمان،جبکہ لنچنگ میں قتل ہونے والوں میں اکثریت انہیں ڈاڑھی ٹوپی والوں کی ہوتی ہے ، مسجدوں میں گھْس کر انہیں اماموں، موذنوں کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں ، ہمارے مدرسوں میں پڑھ رہے معصوم بچوں تک کو چھوڑا نہیں جاتا ،ظالموں کو 7 سال کے عظیم اور 7 سال کی آصفہ پر بھی ترس نہیں آتا، باوجود ہم مسلمان ہی غنڈے اور دہشتگرد ٹھہرائے جاتیہیں۔۔۔۔۔۔ پولس کاروائیاں بھی ہم پہ ہی ہوتی ہیں ، پولس لاک اپ میں قتل بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، کوئی بھی معاملہ ہو، بھلے محلے کی چھوٹی موٹی تو تو میں میں ہی کیوں نہ ہو، سب سے پہلے ہمارے ہی نوجوانوں کو پولس گرفتار کرکے لے جاتی ہے اور ان پہ جبرا کئی قسم کے دفعات لگاکر ان کی زندگیاں برباد کردی جاتی ہیں ، پھر جب فساد چھڑتا ہے تو سڑکوں، نالیوں میں ملنے والی لاشیں بھی ہماری ہی ہوتی ہیں ، جلتے آشیانوں سے لے کر لٹتی دکانیں بھی ہماری ہیں اور جیلوں کی صعوبتیں بھی ہم ہی جھیلتے ہیں،باوجود مسلمان ہی دہشتگرد ہے۔شاید ایک حد تک یہ صحیح بھی ہے کیونکہ ظلم کرنے والے سے بڑا ظالم، ظلم سہنے والا اور ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے والا ہے اور ظلم کو سہنا ظالم کی مدد کرنے کے مترادف ہے اس لحاظ سے بیشک مسلمان ہی سب سے بڑا دہشتگرد ہے۔کیونکہ آج مسلمان کی خاموشی، چپی ، مفادپرستی اورابن الوقتی ہی اْس کی دشمن بنی ہے۔ آج ہماری تلواریں میانوں میں پڑی پڑی زنگ آلود ہوچکی ہیں ، ہمارے بازوؤں میں وہ جان باقی نہیں رہی جو کبھی شیروں کے جبڑے چیر دیا کرتی تھیں، نہ ہی ہماری آواز میں شیر کی گرج ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ایک گیدڑ سنگھی بھی ہمیں مارتا ہے تو ہم اپنی دفاع میں پلٹ وار نہیں کرپاتے، ارے پلٹ وار تو بہت دور کی بات ہے ہم ایک طمانچہ رسید نہیںکر سکتے، بلکہ دنگائیوں کے آگے رونے، گڑگڑانے لگتے ہیں ، ظالم کے آگے گھْٹنے ٹیک کر ہاتھ جوڑتے ہیں ، اپنی جان کی امان مانگتے ہیں، جبکہ ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا، نہ ہی جان و مال کی بھیک مانگتا ہے۔ جبکہ اسلام کا سیدھا اور صاف قانون ہے ،ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، آنکھ کے بدلے آنکھ اور جان کے بدلے جان۔لیکن افسوس ہمیں یہ سبق کبھی پڑھایا ہی نہیں گیا ، ہمیں تو حسن سلوک ، امن، اتحاد، ایکتا ،بھائی چارگی جیسی فریبی سیکھ دی گئی ہے، ہمارے اماموں، ہمارے خطیبوں نے بھی وہ سارے سبق ،وہ سارے احکامات فراموش کردئے ہیں جس میں دشمنان اسلام کے خلاف جہاد کرنا فرض عین بتایا گیا ہے ، ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی تلواریں توڑ دی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں ہم ذلیل و خوار کئے جارہے ہیں۔ افسوس ہے ہمارے ان حالات پر!ہم پوری طرح سے غیروں پہ منحصر ہوچکے ہیں اور انہیں سے انصاف کی امیدیں لگا رکھی ہیں جن کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔بس اتنا سوچیں ہمارے نوجوانوں کا قتل کرنے والے قاتلوں میں آج تک کتنوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ؟؟؟ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں ایک کو بھی نہیں، برعکس انہیں مسندوں پہ بٹھایا جاتا ہے، ان کی گْل پوشی کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ ہوتا آنکھوں سے دیکھ کر بھی ہم وقت اور حالات سے سبق نہیں سیکھ رہے ہیں۔ اسلام اور دین کے نام پر ہمارے مسلم نوجوانوں کو چند نام نہاد رہنما ،رہبرو قائد کہلانے والوں نے بزدل بنا دیا ہے، حکمت و مصلحت کے نام پہ ذہنی و جسمانی مفلوج بنادیا ہے ، آج ہمارے گھروں میں عیش و عشرت کے ہر قسم کے ساز و سامان موجود ہیں، ہمارے دسترخوان قسم قسم کے لوازمات سے سجے ہوئے ہیں لیکن ہمارے پاس ہمارے گھروں کے اندر اپنی حفاظت کے لئے ایک معمولی ہتھیار تک میسر نہیں ہے ، نہ ہی کبھی کسی نے اس کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔فسادات کے دوران اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسلمان ذہنی و جسمانی طورپر تیار نہیں رہتے، نہ ہی اس سے نمٹنے کے لئے ہمارے سامنے کسی قسم کی تدابیر ہیں ،جبکہ ہمارے بزرگوں کی زندگیاں ہی جنگ کے میدانوں میں تلواروں کے سائے میں گزری ہیں اور آج اْن کے وارث موبائل جیسے گجٹس میں اپنی زندگیاں برباد کررہے ہیں ، جنگ لڑیں گے بھی تو آن لائن جنگیں ،سوشیل میڈیا والے سپاہی بن کر، یا ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالتے ہوئے مسلک مسلک فرقہ فرقہ اور ایک دوسرے پہ کفریہ فتوی لگاکر ، خدارا! لعنت ہو ایسی مردانگی پر ،ایسے علم، ایسی جہالت اور ایسی نامراد طاقت پر جو دشمن کا بال تک باکا نہ کرسکے اور اپنوں پہ وار پہ وار کرے ، اور ہر لمحہ اپنوں کی ٹانگ کھیچنے میں کوشاں رہے۔اگر ہم مسلمان صرف تریپورا معاملہ پر ہی غور کریں گے تو بہت سارے چبھتے ہوئے حقائق نظر آجائیں گے، ساتھ ہی ہماری کمیاں خامیاں بھی پتہ چلیں گی اور آنے والے حالات کا ہم کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں اس کے لئے ہمارا تجزیہ ہمارا غور و فکر مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہاں ہر بار دہرائے جانے والی پہلی لاپرواہی۔تریپورا، بنگلہ دیش کے سرحدپرواقع ہے ، اور بنگلہ دیش میں جب فساد ہوا، اْس کا اثر تری پورہ و آس پاس کے دیگر علاقوں میںپڑنالازمی تھا۔باوجود مسلمان غفلت میں جیتے رہے، اپنی حفاظت کے لئے وقت رہتے کسی قسم کی تیاری نہیں کی۔مانا تریپورا میں مسلم آبادی ہندو آبادی کے مقابلہ بہت کم ہے، باوجود ہمیں اپنی تاریخ بھولنی نہیں چاہئے ،جس میں ہمیشہ دشمن اہل ایمان والوں سے تعداد میں اور طاقت میں زیادہ رہے ہیں، چاہے وہ کربلا کا واقعہ ہو یا جنگ بدر کا۔دوسری بات جنگیں تعداد کے بل پہ نہیں لڑی جاتی بلکہ ہمت ، جوش اور جذبہ اور فتح کی یقین پہ لڑی جاتی ہیں۔ممکن ہے ان حالات میں مسلمانوں کا جانی مالی نقصان زیادہ ہو، لیکن بزدلی کی موت سے تو مرد مجاہد کی شہادت اچھی ہے۔ ویسے بھی خاموش رہ کر کونسا ہماری جانیں، ہمارے گھر بار محفوظ ہیں ؟؟؟ ایسے بھی تو نقصان ہے ،جان کا خطرہ ہے تو کم از کم شان سے لڑ کر شہادت کا مرتبہ حاصل کریں۔ویسے بھی ملک کے موجودہ حالات ، مسلمانوں کے خلاف سنگھیوں کی نفرف کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا ، بالخصوص ذہنی طور پر !یاد رہے آنے والے وقت میں حالات مزید بگڑنے والے ہیں۔ 2024 سے پہلے بہت کچھ بدلنے والا ہے ، ممکن ہے پورے بھارت میں اس طرح کے فسادات کروائے جائیں اور یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ پیشین گوئی بجرنگ دل وی ایچ پی جیسی ہندو تنظیموں کے ذمہ داران کی زبانی ہے اور وہ کھلے عام مسلمانوں کو دھمکی دے رہے ہیں کہ فی الحال جو ہورہا ہے وہ محض ٹریلر ہے آگے جو ہوگا وہ پوری فلم ہوگی اور ایسی فلمیں ہر 6 ماہ میں دکھائی جائیں گی۔عقلمند ہیں، خود کو دانشور سمجھتے ہیں تو ان کے اشاروں کو سمجھیں ، خواب خرگوش سے جاگیں ، آج بھارت کے ہر ہندو گھر میں ہتھیار پہونچادئییگئے ہیں ،حتی کہ اسکولی بچوں کے ہاتھوں میں بھی ہتھیار تھماچکے ہیں، وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی ہتھیار چلانا سیکھا رہے ہیں لیکن ہم اپنے بچوں کو موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر و دیگرفضولیات کا عادی بناکر جسمانی و ذہنی طورپرکمزور کررہے ہیں، نہ ورزش، نہ علم، بس وقت گزاری ہمارا روٹین بن چکا ہے۔ہماری قوم کے لئے یہ کتنا بڑا المیہ اور شرم کا مقام ہے کہ آج گھاس پھوس کھانے والوں کے ہاتھوں، گھروں میں ہتھیار ہے اور اْن کے بچے اس کو چلانا جانتے ہیں ، وہیں گوشت اور نالیاں چیر دینے والی قوم کے پاس ہتھیار نہیں، نہ ہی ہتھیار چلانے کے ہنر سے ہماری نوجوان نسل واقف ہے۔ اس سے بھدا مذاق ہمارے لئے اور کیا ہوگا ؟خدارا! اب تو ہوش میں آجائیں، حالات مزید بیقابو ہوجائیں اس سے پہلے ہوش میں آئیں ، اپنے اندر سے خوش فہمیاں، خوش گمانیاں نکال پھینکیں ، بزدلی پہ مصلحت کا خوبصورت لبادہ ڈالنابند کریں۔عنقریب جو حالات ہمارے سامنے آئیں گے وہ بیحد خطرناک ہونگے اور یقین جانو اْس وقت’’ لڑوگے نہیں تو مار دئے جاؤ گے‘‘۔یہاں کمزور کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، چاہے وہ پولس ہو یا ہمسائے، حکومت سے تو کوئی امید ہی نہ رکھیں ،وہ کل بھی آدم خور تھی آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔رہی بات ہم وطن، ہمسایوں کی تو دہلی اور تریپورا فساد میں آپ نے خود پولس اور ہمسایوں کا کردار دیکھا ہے، وہاں کی مقامی سرکار کیردعمل سے بھی بخوبی واقف ہیں۔دنگائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو مارتی خاکی وردی بھی دیکھی ہے،اور مسلم گھروں کی نشاندہی کرواتے ہمسایوں کو بھی دشمن بنتے دیکھا ہے۔ اب مزید انتظار کس کا؟آخر اور کتنے جنازے اٹھانے کی ضد ہے ؟اور کتنی ذلت ورسوائیوں کے داغ اپنے ماتھے پہ سجانے ہیں ؟؟؟ان نام نہاد بزدل و مفادپرست رہنما و رہبروں کے پیچھے بھاگنا چھوڑدیں، ان کی چکنی چْپڑی باتوں میں ہرگز نہ پھنسیں،یہ صرف آپ کے اپنوں کی موت پہ تماشہ دیکھنے ، فاتحہ پڑھنے اور آپ کے لوٹنے کٹنے کے بعد آپ کی تعزیت کرنے آپ کو راشن تقسیم کرنے کے لئے ہی آئیں گے، تاکہ آپ کے نام سے مزید ان کا چندوں کا دھندہ ہوسکے ، بیرونی ممالک سے ان کے لئے فنڈنگس ہوں اور ان پیسوں سے یہ عیاشیاں کریں ، اے سی کے محلوں، مخمل کے بستروں پہ ان کی آل و اولاد آرام کرسکیں،اس کے علاوہ انہیں آپ کے جینے مرنے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔اگر ان کے اندر تھوڑی بھی غیریت باقی رہتی ، آپ کے لئے تھوڑی بھی ہمدردی ہوتی تو یہ حکومت سے سوال کرتے آپ کی خاطر سڑکوں پر اْتر آتے،لیکن نہیں انہیں بس اپنی اپنی روٹیاں سیکنی ہیں۔ذرا سوچیں جو شخص کشمیر 370 کی حمایت میں جنیوا پہنچ جاتا ہے وہ مسلمانوں کے لئے بھارت کی سڑکوں پر اپنے مریدین کو کیوں نہیں اتار سکتا ؟؟؟جو چپکے چپکے بھاگوت سے ملاقاتیں کرتے ہیں ، کانگریس اور بی جے پی سے ان کا قریبی دوستانہ ہے وہ ان سے مسلمانوں پہ ہورہے مظالم پہ اف تک نہیں کرتے ، سالوں سے بس گرفتاری اور رہائی کا سیاسی کھیل چل رہا ہے لیکن کبھی اس کا مکمل حل تلاش نہیں کیا گیا ،سوچیں! ایسی رہائی کس کام کی جو آپ کے جسم کا سارا خون چوسنے، آپ کے جسم کی ہڈیوں کو گلادینے کے بعد ملے ؟اور یاد رہے کوئی آپ کے لئے قانونی جنگ لڑ رہا ہے تو وہ کوئی مہربانی نہیں کررہا ہے، بلکہ آپ کے نام سے قوم کو بیوقوف بھی بنایا جارہا ہے ، اپنی شبیہ بنائی جارہی ہے ساتھ ہی نفع کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ یہاں پہ مولوی عمرگوتم اور مولانا کلیم صدیقی صاحب ہی کو دیکھ لیں ،یہ دونوں عظیم شخصیت اوران کے ساتھ ان کے کئی ساتھی اتنے دنوں سے جیل کی اذیتیں برداشت کررہے ہیں لیکن چند موقع پرست خود کو قوم کا ہیرو بناکر ان حضرات سے نظریں پھیر گئے۔ہمارے سامنیعمرگوتم صاحب، کلیم صدیقی صاحب اور شاہ رخ خان کی مثالیں کافی ہیں۔دوسری بات سیکولرزم کا ڈھول بجانے والوں کے لئے بھارت میں شاہ رخ خان جتنا سیکولر اور کون ہوگا جس نے ہندو عورت سے شادی کی، اپنے گھر میں پتھر کے بتوں کی پوجا کروائی ، دیوالی ہولی بھی کھیلی مگر بدلے میں کیا ملا ؟کفریہ عمل کرنے کے باوجود نام کے ساتھ خان جڑے ہونے کی وجہ سے وہ فرقہ پرست سرکار کے چنگل سے بچ نہ سکا، اس سے آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کے خلاف کس قدر زہریلی نفرت بھری گئی ہے۔آپ کسی صورت انہیں خوش، راضی نہیں کرسکتے ، بھلے اپنے جسم سے چمڑی اتار کر ان کے لئے جوتیاں بنوادیں، یہ ہندوتوا کے ہنٹر سے آپ کی مزید چمڑی ادھیڑیںگے ضرور۔بھلے سامنے شاہ رخ ، سلمان ہو یا اعظم خان جیسا سیاستدان !
ایسے میں ہماری اور آپ کی اوقات کیا ہے ؟اس لئے وقت رہتے ہوش کے ناخن لیں، سیکولر جیسی نوٹنکی، ڈھکوسلے بازی بند کریں اور اپنے اور اپنوں کی حفاظت کے لئے انفرادی یا اجتماعی جیسے ممکن ہوکوشش کریں۔آخر میں قرآن پاک میں اللہ تعالی کا واضح فرمان ’’کافر کبھی آپ کا دوست نہیں ہوسکتا ‘‘اس پرعمل پیراہوکرزندگی گذاریں گے تبھی کامیابی مل سکتی ہے ورنہ نہیں!!!