گرونانک ، قومی یک جہتی اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے

عارف عزیز( بھوپال)
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر میں اس ہستی کو خراج عقیدت پیش کیاگیا ہے جس کو دنیا وحدت وانسانیت کے علمبردار گرونانک کے نام سے جانتی ہے اور جس نے پندرہویں صدی عیسوی میں اہل ہند کو درس صداقت دیا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو ایک نئی راہ دکھائی، وہ راہ جو مذہبی تعصبات سے دل ودماغ کو پاک وصاف کرتی تھی اور اپنا حق چھوڑ کر دوسروں کے حقوق کی قدر کرنے کی تلقین کرتی تھی۔ گرونانک کی پیدائش آج سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل ننکانہ صاحب (مغربی پاکستان) میں اس عہد میں ہوئی جب کہ ہندوستان میں ہندومسلم روایات اور نظریات کا گہر ا اشتراک تھا اور اس باہمی یگانگت نے ہی آپسی محبت اور اخوت کی نئی اقدار کو جنم دیاتھا جس کے نتیجہ میں غلامی ، توہمات اور اندھے یقین میںگھرے لوگوںکو روشنی کی ایک کرن نظر آنے لگی لہذا گیارہویں صدی میں رتن ناتھ کی شاعری، بارہویں تیرہویں صدی میں شیخ بابا فرید شکر گنج کا کلام اور اس کے بعد کبیر کی بانی نے عوام الناس کو مختلف بھول بھلیوں سے نجات دلائی، گرونانک اور اس عہد کے دیگر صوفیوں نے بھی اس تحریک کو مزید تقویت بخشی اور ان ثقافتی رشتوں کو مستحکم کیا جن کی جھلک آج بھی کسی نہ کسی حیثیت سے نظر آجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو کے شعراء اور اہل قلم حضرات نے گرونانک کا نہایت ہی عقیدت کے ساتھ ذکر کیا ہے علامہ اقبال ہے اپنی نظم ’’نانک‘‘ میںبابا نانک کے وحدت کے فلسفہ کو نہایت دلنشیں اندازمیں پیش کیا ہے۔اور ہندوستانی بچوں کے قومی گیت میں بھی وہ حق پرستوں اور وحدانیت کے پرستاروں کے نام گنواتے ہوئے کہتے ہیں۔
چشتی نے جس زمیں پہ پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
اردو کے ایک دوسرے صوفی منش شاعر نظیراکبرآبادی نے گرونانک کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
کہتے ہیں نانک شاہ جنہیں وہ پورے ہیں آگاہ گورو
وہ کل کے رہبر ہیں جگ میں ہیں یوں روشنی جیسے ماہ گورو
گرونانک جی نے ایسے زمانے اور ایسے عہد میں امن ومحبت، شانتی واخوت کے بیج بوئے اور ملنساری وہمدردی کی کھیتی کو پروان چڑھایا جب مختلف مذاہب وعقائد کے ماننے والوں میں اپنے مذاہب کی روح سے ناآشنا لوگون کی تعداد بڑھ رہی تھی اور روحانیت کی حقیقی تعلیم سے لوگ محروم ہوتے جارہے تھے اور اس کا نتیجہ ظاہر داری ، رسومات پر اصرار اور نفرت کی آگ میںجھلسنے کی صورت میں آنے لگا تھا، ایسی دلنشیں اور محبوب شخصیت کو اردو کے دوچار نہیں سینکڑوں شعراء نے اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔معروف ماہر تعلیم خواجہ غلام السیدین نے گرونانک کی تعلیمات کے بارے میں کہاہے کہ ’’میں جب ان کے الفاظ پڑھتا ہوں توان میں سچی مذہبیت کا جلوہ نظر آتا ہے اور محبت، رحم، ہمدردی، خدمت اور زندگی کی سچی قدروں کا پیغام ملتاہے۔ خودبابا گرونانک نے کہا ہے۔
اول اللہ نور آپائے قدرت دے سب بندے
ایک نور سے سب جگ اپجا کون بھلا کون مندے
یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور اس نے نہ صرف ہم کو بلکہ پوری کائنات کو پیدا کیا ہے اس کے سوا کسی کا تصور بیکار ہے گرونانک جی کے مطابق انسان اس دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے اس لئے ایک دوسرے سے منافرت خدائے تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہے۔جہاں جہاں گرونانک گئے انہوں نے خدا کی وحدت، انسانیت کی خدمت اور محبت کا پیغام پہونچایا۔ عوام الناس کو یہ تعلیم دی کہ ان کو نظر آنے والی پرفریب زندگی فضول ہے اورانہیں مختلف ڈھونگ نیز فضول رسموں سے آزاد ہوکر حقیقت کی سیدھی وسچی راہ اپنانا چاہئے۔انہوں نے مقدس پانی سے اشنان ، جنیو پہننے اور بلی دینے جیسی بعض ہندورسم ورواج کی بھی مخالفت کی۔گرونانک کا سب سے بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ذات پات ، چھوت ، چھات، اور مذہبی جنون و جانبداری کے خلاف شدید جدوجہد کی ان کے خاص چیلوں میں سے ایک مسلم موسیقار اور دوسرے نیچی ذات کے ہندوتھے۔ انہوں نے نام نہاد اعلیٰ نسل اور ذات پات کی برتری کے کھوکھلے پن کو ثابت کیا اور انسانی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش وسعی کی ان کا مشہور قول ہے کہ جب تک دل پاک وصاف نہ ہوتو مورتی کو پوجا کرنا، تیرتھ استھان کی یاترا کرنا اور صحر امیں رہبانیت کی زندگی گزارنا بے سود ہے ان کا نظریہ تھا کہ تمام انسان راستی وپاک بازی کی زندگی گزار کر خدا تک پہونچ سکتے ہیں یعنی اس کی خوشنوری حاصل کرسکتے ہیں۔ذات پات کے صدیوں سے جاری نظام پر گرفت کرتے ہوئے گرونانک جی نے کہا کہ انتہائی اعلیٰ خاندان کے انسانوں میں بھی غیر شریف موجود ہوسکتے ہیں اور کمتر ذات کے لوگوں میںبھی پاک طینت انسان مل جاتے ہیں لہذا برے انسانوں سے دور رہنا اوراچھے انسانوں کی خاک پا بننا چاہئے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی تعصبات سے اوپر اٹھ کر باہمی دوستی ، قومی یکجہتی ہندومسلم اتحاد اور انصاف پر مبنی جس سماج کی تشکیل کا پیغام گرونانک نے دیاتھا وہ آج بھی پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔

 

Related Articles