کھاد کی عالمی قلت، خوراک کی عالمی قلت میں بدل سکتی ہے:گوئتریس

نیو یارک،ستمبر۔منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین پر روس کے حملے کے عالمی اثرات کو اجاگر کیا گیا ، جب کہ سالانہ بحث جاری رہی۔ رہنماؤں نیکھاد کے حصول کی ہنگامی نوعیت پر بات کی ، خاص طور پر دنیا کے کاشتکاروں کو مناسب قیمت پر اور وقت پر پودے لگانے کے موسم کے لیے، جو دنیا کے کچھ حصوں میں پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئتویس نے اس بارے میں خبر دار کیا کہ اگلے سال کیا کچھ ہو سکتا ہیاور اگر اس وقت کوئی اقدام نہ کیا گیا تو کھاد کی عالمی قلت جلد ہی خوراک کی عالمی قلت میں تبدیل ہو جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ اس بارے میں رپورٹس ملی ہیں کہ مغربی افریقہ اور دوسرے خطوں کے کاشتکار کھاد کی قیمت یا اس کی دستیابی کے فقدان کے باعث پہلے سے کم فصلیں کاشت کر رہے ہیں۔سینیگال کے صدر اور افریقی یونین کے چیئر پرسن میکی سال نے جنرل اسمبلی کی بحث کے موقع پر خوراک کی سیکیورٹی پر الگ سے ہونے والے وزرا کی سطح کے اجلاس میں کہا ، فرٹیلائزرز 2021 سے تین گنا زیادہ مہنگی ہو گئی ہے ۔روس نے 24 فروری کو جب سے یوکرین پر حملہ کیا ہے ، اس نے اپنیفریٹلائزر کی برآمدات پر کوٹہ لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے کاشتکاروں کے لیے کافی کھاد چاہتا ہے۔ ماسکو فرٹیلائزر برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے ، اس نے جو رکاوٹیں اور قلتیں پیدا کی ہیں اس کے نتیجے میں بین الاقوامی منڈیوں میں قیمتوں میں زبر دست اضافہ ہوا ہے۔ اور کچھ چھوٹے کاشتکاروں کے لیے کھاد کی خرید ناقابل برداشت ہو گئی ہے ، جس سے ان کی فصلوں میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔اس سے عالمی غذائی تحفظ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، جس کی صورتحال پہلے ہی بہت خراب ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 800 ملین سے زائد لو گ بھوک کا شکار ہیں۔ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے خوراک کے سر براہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روس کو یوکرین کے خلاف اپنی غیر قانونی جنگ ختم کردینی چاہیے، جس سے دنیا کی خوراک کی فراہمی کے ایک اہم ذریعے کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔سفارت کاری کی اپیلوں کے باوجود ، روس نے جلد ہی لوہانسک او ر ڈونیٹسک کے لیے خود کو روس کا حصہ قرار دینیپر ایک ریفرنڈم کے منصوبوں کے ساتھ اس جنگ کو جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔یوکرین کے علاقے ڈانسک میں لوگ ورلڈ فوڈ پروگرام سے امداد کے منتظر۔ یوکرین پر روس سے حملے سے لاکھ باشندے بے گھر ہو چکے ہیں اوربھوک کے بحران میں گھر چکے ہیں۔اگرچہ روسی خوراک یا کھاد کی برآمدات پر مغرب کی جانب سے کوئی پابندی عائد نہیں ہے لیکن ماسکوکا دعوی ہے کہ پابندیاں عائد ہیں۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے جن کے ملک نے بحیرہ اسود کے اناج کے پروگرام میں اقوام متحدہ کے ساتھ ثالث کا کردار ادا کیا تھا ، منگل کے روز سفارت کاری کے ذریعے جنگ کے خاتمے کی اپیل کی۔روس اور یوکرین ، دونوں ملکوں کے رہنما اس ہفتے نیو یارک میں موجود نہیں ہیں اور کوئی نمایا ں پیش رفت متوقع نہیں ہے۔فرانسیسی صدر ایمنوئل میکران نے، جنہوں نے صدر پوٹن کے ساتھ سفارتی چینلز کھلے رکھے ہیں، کہا کہ فرانس امن کا منتظر ہے میں جنگ کے آغاز سے ان گزریمہینوں میں روس کے ساتھ ڈائیلاگ سے وابستہ ہوں اور میں یہ سلسلہ جاری رکھوں گا۔

Related Articles