کووڈ 19: بڑے بڑے جہاز بھی سامان کی بروقت ترسیل کا مسئلہ حل کیوں نہیں کر پا رہے؟
کیپ ٹاؤن /لندن،ستمبر۔جیرڈ چیٹووٹز کا تعلق جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن سے ہے اور وہ سائیکلوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کے پاس کْل ملا کر تین سو سائیکلیں ہیں۔ وہ اپنے کاروبار کو رواں رکھنے کے لیے سائیکلوں کے سپیئر پارٹس (پیڈلز سے لے کر سائیکلوں پر لگی گھنٹیوں تک) کی تیز تر ترسیل پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن اب انھیں ایک مسئلہ درپیش ہے۔جیرڈ کے مطابق ’جو شخص مجھے سائیکلوں کے ٹائر سپلائی کرتا ہے، رواں برس کے آغاز میں اس نے مجھے نئے ٹائروں کی فراہمی کے لیے دس سے بارہ ماہ تک کا طویل انتظار کرنے کو کہا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت پریشان کْن ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وبا نے جہاں عالمی سطح پر سائیکلوں کے استعمال کو بڑھایا ہے وہیں دوسری طرف اْن کو سپیئر پارٹس کی ڈیلیوری میں تعطل کا سامنا ہے۔سپیئر پارٹس کی ڈیلیوری میں رکاوٹ کی وجہ یہ ہے کہ ہول سیل کا کاروبار کرنے والوں کو دنیا بھر میں سامان کی ترسیل کرنے والے شپنگ کنٹینرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جیرڈ کو اپنا کاروبار جاری رکھنے میں مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اس وقت 50 نئی سائیکلوں کا انتظار بھی کر رہے ہیں، جو وہ فرانس سے درآمد کروا رہے ہیں۔ شپنگ کنٹینرز کی کمی کی باعث انھیں ابھی یہ نہیں معلوم کہ یہ نئی سائیکلیں کب تک فرانس سے کیپ ٹاؤن پہنچ پائیں گی۔چند ماہ قبل کیپ ٹاؤن کی ایک مقامی کاروباری شخصیت نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ فلاحی کاموں کے لیے درکار چند سائیکلوں کی مرمت کر دیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مرمت میں درکار پرزے مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں اور اسی لیے وہ فلاحی کام بھی رْکا ہوا ہے۔جیرڈ کے مطابق وہ مقامی دکانوں سے بھی سپیئر پارٹس لیتے ہیں مگر اب ان دکانوں میں بھی سپیئر پارٹس کی رسد کی کمی ہے۔جیرڈ اس نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنے والے اکیلے شخص نہیں ہیں کیونکہ دنیا بھر میں مختلف کاروباروں سے منسلک لوگوں کو کچھ عرصے سے اس قسم کے لاجسٹکل مسائل کا سامنا ہے۔کورونا لاک ڈاؤن کے باعث کاروبار سمٹ گئے تھے مگر اب دنیا بھر میں کاروبار دوبارہ سے اور تیزی سے کھلنا شروع ہوئے ہیں۔اس وقت بھی امریکہ اور چین کی مصروف ترین بندرگاہوں پر سینکڑوں بحری جہاز قطاروں میں لگے کھڑے ہیں اور بندرگاہوں میں داخلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں سامان کی ترسیل کے لیے درکار ٹرکوں اور گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی کمی کا سامنا بھی ہے، جس کی وجہ سے بحری جہازوں سے اترنے والے کنٹینرز کو ان کی منزل پر پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔یہ کہانیاں اب عام ہیں کہ کیسے چند کنٹینرز بندرگاہوں پر کئی کئی ماہ سے لاوارث پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ کنٹینرز کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ایس اینڈ پی گلوبل پلاٹس سے منسلک جارج گرفتھ کہتے ہیں کہ سامان سے بھرا ایک 40 فٹ کا کنٹینر ایشیا سے یورپ بھیجنے پر اٹھنے والا خرچہ لگ بھگ ساڑھے سترہ ہزار ڈالر تک ہے اور یہ قیمت گذشتہ برس کے مقابلے میں تقریباً دس گنا زیادہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اب کچھ شپنگ کمپنیاں مقررہ وقت میں کنٹینرز کی ترسیل کی ضمانت کے عوض اضافی پیسے لے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، جارج کے مطابق، درآمدکنندگان ان حالات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس چکر میں وہ کمپنیوں کو اضافی رقوم فراہم کر رہے ہیں۔جارج گرفتھ کے مطابق یہ صورتحال شپنگ کی عالمی مارکیٹ پر اثر انداز ہو رہی ہے۔اس صورتحال سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا طلب اور رسد میں درپیش یہ مسئلہ وقتی ہے یا پھر یہ کہ کنٹینر شپنگ کا عظیم سلسلہ ہماری تیزی سے بدلتی دنیا میں جاری نہیں رہ پائے گا؟شپنگ انڈسٹری کے حوالے سے کتاب نائنٹی پرسنٹ آف ایوری تھنگ کی مصنفہ روز جارج کہتی ہیں کہ طلب میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے شپنگ انڈسٹری اپنی کمزور ہوتی قوت کا اظہار کر رہی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ شپنگ کی صنعت ہمیشہ سے اہم رہی ہے اور اس نوعیت کے مسائل بھی رہے ہیں لیکن کبھی بھی انھیں نوٹس نہیں کیا گیا اور اب حالیہ بحران میں یہ کْھل کر سامنے آیا ہے کہ شپنگ کی صنعت عالمی معیشت کے لیے کتنی اہم ہے۔شپنگ کی صنعت کو درپیش اس حالیہ زوال کے بعد چند بڑے کاروباری اداروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے کنٹینرز اور چارٹرڈ بحری جہاز خریدیں گے تاکہ سامان کی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ ان کاروباری اداروں میں امریکہ کا وال مارٹ اینڈ ہوم ڈیپوٹ اور سویڈین کا فرنیچر برینڈ آئیکیا شامل ہے۔آئیکیا کی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ان کی کمپنی نے اضافی کنٹینرز اور چارٹرڈ بحری جہازوں کے آرڈر دیے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے گذشتہ کچھ عرصے میں اپنی مصنوعات کو بذریعہ ٹرین چین سے یورپ بھی ڈیلیور کروایا ہے اور چین، انڈیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں موجود ویئر ہاؤسز میں عارضی طور پر سرمایہ لگایا ہے تاکہ مصنوعات کی پیداوار کو سہارا مل سکے۔یونیورسٹی آف پلماؤتھ سے منسلک میری ٹائم ٹرانسپورٹ ریسرچ گروپ کے سربراہ سٹاوروس کارامیرڈز کا کہنا ہے کہ کرسمس سے پہلے انھیں یہ گمان تھا کہ شاید کرسمس کے موقع پر لوگ دکانوں پر خالی شیلفس کو تک رہے ہوں گے، خاص طور پر برطانیہ میں جہاں ٹرکوں اور سامان کی ترسیل کی گاڑیوں کے ڈرائیورز کی کمی کا سامنا بھی ہے۔برطانیہ کے بہت سے علاقوں میں سامان کی ترسیل کے لیے گاڑیوں کے ڈرائیورز کی کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ بریگزٹ کی وجہ سے یورپی ڈرائیوز کا برطانیہ چھوڑنا بھی تھی، کیونکہ یورپ سے باہر کسی دوسرے ملک کام کرنے کے لیے ان ڈرائیورز کو اضافی چارجز دینے پڑتے ہیں۔اگرچہ شپنگ فرمز رواں برس ریکارڈ منافع کمانے کی توقع کر رہی ہیں لیکن وہ مسلسل بہت سے مسائل میں بھی گِھری ہوئی ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کنٹینر کمپنی، مائرسک کی ترجمان کانسپکوائن بو آریاس کا کہنا ہے کہ ہم نے وبا سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ویسلز اور کنٹینرز کو اپنے بیڑے میں شامل کیا ہے لیکن بدقسمتی سے اب بھی ہم تاخیر کا سامنا کر رہے ہیں، اور اس تاخیر کی وجہ سے جہاز چھوٹ جاتے ہیں اور کنٹینرز کو جگہ نہیں مل پاتی۔کسی بھی سامان بردار بحری جہاز کو کسی بندرگاہ پر ہونے والی تاخیر کے نتائج ہوتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کسی ایک بندرگاہ پر ہونے والی چند دن کی تاخیر جہاز کے پورے شیڈول پر اثرانداز ہوتی ہے اور اس کے سفر کے دورانیے کو بڑھا دیتی ہے۔انھوں نے کہا موجودہ صورتحال باعث شرمندگی ہے کیونکہ بعض بندرگاہوں پر خالی کنٹینرز کا ڈھیر لگا ہوا ہے جبکہ دیگر بندرگاہوں پر کنٹینرز دستیاب ہی نہیں ہیں۔جیک کریگ اے پی ایم ٹرمنلز میں گلوبل ٹیکنیکل شعبے کے سربراہ ہیں۔ وہ ڈیٹا اینڈ آٹو میشن کی بندرگاہوں پر اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سویڈن میں گوتھنبرگ کی بندرگاہ پر موجود خودکار چیک پوائنٹ پر کنٹینرز میں موجود ہر چیز سکین ہو جاتی ہے اس سے تیس فیصد تک وقت بچ جاتا ہے۔ایک نئے کنٹینر کو تیار کرنے میں دو سے تین سال کا عرصہ لگتا ہے اور اسی لیے اگر ابھی کسی ویسل کا آڈر دیا جاتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ مستقبل قریب میں دستیاب ہو گا۔مسٹر گریفتھ کا کہنا ہے کہ 2050 تک متوقع شپنگ انڈسٹری کے اخراج سے متعلق نئے قواعد پر عمل کی بات کی جائے تو بھی صورتحال تھوڑی غیر یقینی کا شکار لگتی ہے کیونکہ ان نئے قواعد کے باعث کچھ کمپنیاں اس وقت اپنے جہازوں کی تعداد بڑھانے سے متعلق بہت احتیاط پسندی سے کام لے رہی ہیں۔کئی دہائیوں تک کنٹینرز کے ذریعے شپنگ کا کاروبار بڑھتا اور فروغ پاتا رہا ہے۔اس وقت دنیا میں سب سے بڑی ویسل 24 ہزار کنٹینرز کو لے کر چل سکتی ہے۔ڈاکٹر کارامیریڈس کا کہنا ہے کہ لیکن ایسی کشتیوں کو بڑی اور گہری بندرگاہ اور بڑی بڑی کرینز کی ضرورت ہوتی ہے اس کی وجہ سے ان کی آمد و رفت چند محدود بندرگاہوں تک ہی ہوتی ہے کیونکہ انھیں لانے کے لیے بندرگاہ پر بہترین وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔وہ یہ کہتے ہیں کہ زیادہ تعداد میں درمیانی سائز کے جہاز مستقبل میں زیادہ قابل بھروسہ سپلائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔مارک لیونسن ایک ماہر معاشیات اور گلوبلایزیشن اور کنٹینر سے سامان کی ترسیل سے متعلق لکھی جانے والی کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ چھوٹے جہاز بندرگاہوں کے لیے ڈیل کرنا آسان ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کاروباری اداروں کو عالمی سپلائی کے رابطے کے انحصار پر شاید دوبارہ غور کرنا پڑے جو کہ دنیا بھر سے ایک ہی فیکٹری پرزے لاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ طریقہ کار سستا ہو سکتا ہے مگر اس میں ہر چیز کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے لیے ہر چیز عملی طور پر کام کر رہی ہو۔وہ کہتے ہیں کہ شپنگ کے بحران نے اس قسم کے کاروبار میں خطرات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ مس جارج نے مزید کہا کہ ہمیں شاید اپنی شاپنگ کی عادات کو مزید بدلنے کی ضرورت ہے۔موجودہ صورتحال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ یہ صورتحال کہاں تک جائے گی لیکن انھیں امید ہے کہ اب اشیا کے استعمال کے اندر کمی ہو گی۔اور کیپ ٹاؤن میں اگرچہ جیرڈ بین الاقوامی سطح پر جہازوں کی آمدو رفت اور سامان کی ترسیل میں کمی پیشی کے باعث اس خیال کو پسند کرتے ہیں کہ پرزہ جات گھر کے پاس سے ہی مل جائیں لیکن ان کو بھی معلوم ہے کہ شاید یہ حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’وہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں جو سائیکل میں استعمال ہوتی ہیں وہ ایشیا میں سستی بنتی ہیں، میں انھیں مقامی طور پر تیار ہوتے نہیں دیکھ پاتا، ہم کیسے اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گے؟‘ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک نظام میں جکڑ لیے گئے ہیں۔‘