کابل میں افغان خواتین کا احتجاج
دوسرے ممالک سے طالبان حکومت کوتسلیم نہ کرنے کامطالبہ
کابل،اپریل ۔ افغان خواتین نے ہفتے کے روزدارالحکومت کابل میں طالبان حکومت کے اقدامات کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کو مسترد کرتے ہوئے دوسرے ممالک پرزور دیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کے زیراہتمام کانفرنس سے قبل طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کریں۔اگست 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل اور دوسرے شہروں میں خواتین کے حقوق پر قدغنوں کے خلاف آواز اٹھانے والی مظاہرین کو پیٹا یا حراست میں لیا گیا ہے اور طالبان کی سکیورٹی فورسز نے کچھ ریلیوں کو منتشرکرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی ہے۔لیکن خواتین کے چھوٹے چھوٹے گروپوں نے وقفے وقفے سے اجتماعات اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ہفتے کے روزقریباً 25 افراد نے دوحہ میں ہونے والے اجلاس سے قبل افغان دارالحکومت کے ایک رہائشی علاقے میں مارچ کیا۔اس اجلاس کے بارے میں اقوام متحدہ کاکہنا ہے کہ اس میں ملک کے لیے’پائیدارراستے‘پرتبادلہ خیال کیا جائے گا۔دس منٹ سے زیادہ جاری رہنے والے مارچ کے دوران میں خواتین نے طالبان کو تسلیم کرنے کے خلاف اور خواتین کے حقوق کے حق میں نعرے لگائے اور وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کے بغیر منتشرہوگئیں۔2021ء میں امریکی افواج کیافغانستان سیانخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کیا ہے۔سفارت کار، این جی اوز اور امدادی ادارے اس وقت اس معاملے پر گہری تقسیم کا شکارہیں۔گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل امینہ محمد نے کہا تھا کہ پیر سے شروع ہونے والے دوحہ اجلاس میں سفیرطالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے پرچھوٹے چھوٹے اقدامات تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔امینہ محمد نے پرنسٹن یونیورسٹی میں ایک گفتگو میں کہا:’’کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں، ٹھیک ہے، یہ ہونا چاہیے‘‘۔انھوں نے کہا کہ طالبان واضح طور پرخودکو تسلیم کرانا چاہتے ہیں اوراسی چیز سے ہم فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ دوحہ کانفرنس میں افغانستان کے’’ڈی فیکٹوحکام‘‘ کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔عالمی ادارے کے ایک ترجمان نے جمعہ کے روز کہاکہ تسلیم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔