ڈیوڈ فلر: ہسپتال عملے کے رکن کا 12 برس میں 100 لاشوں کا ریپ کرنے کا اعتراف
لندن،نومبر۔ہیتھ فیلڈ کے علاقے مشرقی سسکس میں رہنے والے 67 سالہ ڈیوڈ فلر نے ٹنبرج ویلز میں وینڈی نیل اور کیرولائن پیئرس پر حملہ کیا تھاانتباہ: اس مضمون میں شامل معلومات بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔برطانیہ میں ایک ہسپتال کے عملے کے ایک کارکن نے سنہ 1987 میں دو خواتین کے قتل اور بچوں سمیت کم از کم 100 خواتین کی لاشوں کا ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ہیتھ فیلڈ کے علاقے مشرقی سسکس میں رہنے والے 67 سالہ ڈیوڈ فلر نے ٹنبرج ویلز میں وینڈی نیل اور کیرولائن پیئرس پر حملہ کیا تھا۔میڈ سٹون کراؤن کورٹ میں قتل کے مقدمے کے چوتھے دن فلر نے اپنی درخواست کو اعتراف جرم میں بدل دیا۔ اس سے قبل انھوں نے 12 برس کے عرصے کے دوران کینٹ کے دو ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں لاشوں کا ریپ کرنے کا اعتراف کیا تھا۔قبل ازیں فلر نے الزامات کو ’کم ذمہ داری‘ کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے خواتین کو مارنے کا اعتراف کیا تھا، لیکن قتل کرنے سے انکار کیا تھا۔مسز جسٹس چیمہ گرب نے جیوری کو ہدایت کی کہ ان کے بیان کے بعد اْنھیں دونوں خواتین کے قتل میں مجرم قرار دیا جائے۔سیکریٹری داخلہ پریتی پٹیل کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت خوفناک مقدمہ ہے۔ اس مقدمے میں کیے گئے جرائم کی دردناک نوعیت عوام کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث بنے گی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اس موقع پر ان دو نوجوان خواتین وینڈی نیل اور کیرولائن پیئرس کو یاد کرنا چاہتی ہوں جن کی زندگی کو 30 برس قبل بے دردی سے چھین لیا گیا۔ میں امید کرتی ہوں کہ ان کے خاندانوں کو بالآخر اس مقدمے میں انصاف ملنے پر کچھ سکون آیا ہو گا۔‘فلر نے اس سے قبل 12 برس تک کینٹ کے دو ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں لاشوں کا ریپ کرنے کا اعتراف کیا تھا۔مقدمے کی سماعت سے قبل اْنھوں نے 51 جرائم کا اعتراف کیا تھا، جن میں دو مردہ خانوں میں 78 شناخت شدہ متاثرین سے متعلق 44 الزامات بھی شامل ہیں جہاں وہ الیکٹریشن کے طور پر کام کرتے تھے۔فلر نے اس سے قبل 12 برس تک کینٹ کے دو ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں لاشوں کا ریپ کرنے کا اعتراف کیا تھا۔مس نیل کے خاندان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ جان کر اچھا لگا کہ اب وہ کسی ایسی جگہ پر نہیں ہے جہاں وہ کسی اور کو کوئی نقصان یا تکلیف پہنچا سکے۔‘تاہم اْن کی سزا کی تاریخ کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔اس مقدمے کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس کیس میں ڈی این اے ٹیسٹنگ جیسی حالیہ پیش رفت کے بعد ثبوت اکٹھے کیے گئے اور اس میں 25 لاکھ پاؤنڈ کی لاگت کا ایک بڑا پولیس آپریشن کیا گیا جس کے باعث فلر کو دوہرے قتل کا مجرم ثابت کرنے میں مدد ملی۔ اس مقدمے کو ’بیڈسٹ مرڈرز‘ کا نام دیا گیا تھا۔اْن کا لعاب اور دیگر ڈی این اے مس نیل کے بستر، تولیے اور جنسی تعلق کے دیگر نمونوں پر پایا گیا تھا۔ اسی طرح اْن کی منی کا نمونہ بھی مس پیئرس کی ٹائٹس پر ملا تھا۔یہ وہ واحد کپڑے تھے جو اس وقت انھوں نے پہن رکھے تھے جب ان کے اغوا کے تین ہفتوں بعد ان کی لاش ایک پانی بھرے نالے سے ملی تھی۔قتل کے الزام میں اْن کی گرفتاری کے بعد فلر کے گھر کی تلاشی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اْنھوں نے اپنے لافٹ اور سپیئر روم میں لاکھوں بچوں کی غیر مناسب تصاویر اور ویڈیوز جمع کر رکھی تھیں۔ یہ تمام انتہائی فحش مواد اْنھوں نے متعدد ہارڈ ڈرائیوز، فلاپی ڈسکس، ڈی وی ڈیز اور میموری کارڈز پر جمع کر رکھا تھا۔ان میں سے دو ڈرائیوز کو ایک ڈبے میں چھپایا گیا تھا جنھیں درازوں کے خانوں کے پچھلے حصے میں پیچوں سے کس کر الماری کے اندر رکھا گیا تھا۔ ان ڈرائیوز پر افسران کو وہ فوٹیج ملی جس میں فلر نے خود کو مردہ خانے میں لاشوں کا ریپ کرتے ہوئے ریکارڈ کیا تھا۔ان ڈرائیوز میں موجود فولڈرز جن میں کچھ متاثرین کے نام درج تھے، ان میں 2008 سے نومبر 2020 کے درمیان تین بچوں سمیت خواتین کی لاشوں کی جنسی بے حرمتی کرنے کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔پولیس اب تک ان ویڈیوز میں دکھائی دینے والے 20 متاثرین کی شناخت نہیں کر پائی ہے۔ ڈپٹی شیرف سپٹ ہال فوتھرنگھم کا کہنا ہے کہ ’افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ شاید اس میں کچھ متاثرین کی شناخت کبھی نہ ہو سکے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ان معاملات میں ان (متاثرین) کی شناخت قائم کرنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے ایسی محدود معلومات دستیاب ہیں اور تفتیش کے باہر کوئی ایسی انکوائری نہیں ہے جو ہماری مدد کر سکے۔‘فلر نے 1989 سے ہسپتالوں میں بطور الیکٹریشن بجلی کے نظام کی دیکھ بھال کا کام کیا اور ستمبر 2011 میں ان ہسپتالوں کے بند ہونے تک کینٹ اور سسیکس ہسپتال میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد اْن کا پمبری میں ٹنبرج ویلز ہسپتال میں تبادلہ کر دیا گیا تھا جہاں وہ گرفتار ہونے تک یہی جرائم کرتے رہے۔اس مقدمے کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ فلر ’اکثر ان لاشوں کو بار بار دیکھنے‘ کے لیے ان ہسپتالوں میں رات گئے کی شفٹوں میں کام کرتے اور مردہ خانوں میں اس وقت جاتے جب دیگر عملہ جا چکا ہوتا۔
متاثرین کے لیے 15 لاکھ پاؤنڈ کا پروگرام:فلر کی جانب سے مردہ خانوں میں لاشوں کی بے حرمتی کرنا ایسا جرم ہے جس سے کینٹ پولیس، یا ملک کی کسی دوسری فورس کو اس سے پہلے کبھی نہیں نمٹنا پڑا۔گذشتہ نو ماہ کے عرصے کے دوران خاص طور پر اس مقدمے کے لیے متاثرین کی امداد کا ایک مخصوص پیکج مرتب کیا گیا ہے جس کی مالیت 15 لاکھ پاؤنڈ ہے اور اس میں 150 فیملی پولیس لائزن افسران شامل ہیں جنھیں ماہرانہ تربیت کے بعد اس میں شامل کیا گیا ہے۔اس مخصوص پیکج کے تحت ایسے متاثرین جن کی شناخت ہو گئی ہے، اْن کے اہل خانہ کو اس متعلق اطلاع دینے کے لیے پولیس فورس نے اْن سے ملاقات کی اور رابطہ افسران آگے بھی ان کی مدد جاری رکھیں گے۔عدالت کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد ہیں کہ مس نیل کا ان کی موت کے بعد یا حملے کے دوران ریپ کیا گیا۔ مس نیل کو 23 جون 1987 میں گوئلڈفورڈ روڈ کے علاقے میں ان کے گھر میں قتل کیا گیا تھا۔اس کے اگلے دن جب وہ نوکری پر نہیں جا سکیں تو ان کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے اور اس کے بعد ان کی لاش ان کے بوائے فرینڈ کو ان کے بستر سے ملی تھی۔فلر کی درخواست میں تبدیلی کے بعد جاری کردہ ایک تحریری بیان میں مس نیل کے اہل خانہ نے کہا کہ وہ 34 سال سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ اْنھیں کس نے مارا اور ’اْنھوں نے اپنے آخری لمحات کیسے گزارے۔‘ان کا تحریری بیان میں کہنا تھا کہ ’اب ہم جانتے ہیں‘ اور اْن کے مطابق اْنھیں افسوس ہے کہ یہ اْن کے تصورات سے کہیں بدتر ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امید ہے کہ اب ہم اس کا غم منا سکتے ہیں اور اس دکھ کو سہہ سکتے ہیں۔ اور انھیں خوبصورت، مہربان، فیاض، دیکھ بھال کرنے والی، مضحکہ خیز لڑکی کے طور پر یاد کرنا شروع کر سکتے ہیں۔’اگرچہ مجرم کی جانب سے اعتراف جرم کچھ تبدیل نہیں کرے گا اور ان کی کمی اور دکھ ہمیشہ ساتھ رہے گا لیکن یہ جان کر خوشی ہے کہ اب وہ کسی ایسے مقام پر نہیں ہے جہاں وہ کسی کو مزید نقصان یا تکلیف پہنچا سکے۔’24 نومبر کو گروسوینر پارک میں ان کے گھر کے باہر سے اغوا ہونے کے بعد مس پیئرس کے ساتھ کیا ہوا تھا اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ان کے پڑوسیوں نے چیخیں سنائی دینے کی اطلاع دی، لیکن ان کی لاش کو تین ہفتوں بعد ان کی رہائش گاہ سے 40 میل دور رومنی مارش میں ایک فارم ورکر نے دیکھا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس کا بہت حد تک امکان ہے کہ فلر دونوں خواتین کو قتل کرنے سے قبل ان سے ملے ہوں۔ فلر سوپا سنیپ ایک تصویریں تیار کرنی والی کمپنی کے گاہک تھے جہاں مس نیل کام کرتی تھیں۔فلر کے گھر سے ملنے والی تصاویر اور ڈائری میں درج تفصیلات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلر بسٹر براؤن ریستوران بھی جایا کرتے تھے جہاں مس پیئرس بطور مینیجر کام کرتی تھیں۔فلر نے 70 کی دہائی کے دوران کم از کم 30 چوریاں کرنے کا ریکارڈ بھی رکھا ہوا تھا جسے پولیس نے ’کریپر سٹائل‘ کہا تھا۔ لیکن انھوں نے کبھی جیل نہیں کاٹی تھی کیونکہ ان کے یہ جرائم پولیس کے ڈی این اے ڈیٹا بیس مرتب کیے جانے سے پہلے کے تھے۔انگلینڈ کے سیکریٹری صحت ساجد جاوید نے کہا کہ نیشنل ہیلتھ سروسز نے تمام ٹرسٹس کو خط لکھ کر اس کیس کی روشنی میں مردہ خانے تک رسائی اور پوسٹ مارٹم کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے کہا ہے۔میڈ سٹون اور ٹنبریج ویلز این ایچ ایس ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹیو مائلز سکاٹ نے کہا کہ ’میں ٹرسٹ کی جانب سے کہنا چاہتا ہوں کہ ڈیوڈ فلر کی جانب سے ہمارے ہسپتال کے مردہ خانے میں مجرمانہ سرگرمی سے میں کتنا حیران اور پریشان ہوں جس کا انکشاف عدالت میں ہوا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اور سب سے اہم بات، میں ان لوگوں کے خاندانوں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جو ان خوفناک جرائم کا شکار ہوئے ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آج ہمارا مردہ خانہ محفوظ ہے۔ لیکن میں یہ دیکھنے کے لیے پرعزم ہوں کہ آیا اس سے ہم نے کوئی سبق سیکھا یا یا نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔’