چینی صدر کی سعودی ولی عہد سے گفتگو
بیجنگ/ریاض،مارچ۔چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پرایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حالیہ معاہدے سمیت متعدد موضوعات پر بات چیت کی۔چینی صدر شی جن پنگ ہی نیایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں مدد فراہم کی تھی۔ چینی ثالثی میں دونوں علاقائی حریف ممالک کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ایران اور سعودی عرب نہ صرف ایک دوسرے کے ہاں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے والے ہیں بلکہ حالیہ چند دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے بھی ہوئے ہیں۔اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان جو اس وقت سعودی عرب کے وزیراعظم بھی ہیں، نے ہمسایہ ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے چینی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات چیت میں اسٹریٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہیں مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ یہ بات اہم ہے کہ چین خلیجی ممالک کا ایک اہم تجارتی پارٹنر ہے۔شی نے کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات سے جڑے معاملات پر اشتراک عمل کے مضبوط عزم پر قائم ہیں۔ سعودی میڈیا کے مطابق شی نے خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے مزید حصہ ملانے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔یہ بات اہم ہے کہ رواں ہفتے سعودی عرب نے چین میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ دسمبر میں شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے بعد سے اب تک سعودی عرب چین کے ساتھ دو بڑے اقتصادی معاہدے کر چکا ہے۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں خطے میں سیکورٹی کی ضمانت دینے والے امریکہ کی جانب سے قدرے پیچھے ہٹنے پر تشویش کا شکار رہی ہیں۔ اس صورت حال میں خلیجی ممالک قومی سلامتی اور اقتصادی شعبے میں دیگر پارٹنر ملکوں کی تلاش میں ہیں۔دوسری جانب سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ نے ماہ رمضان میں ملاقات کا اعلان کیا ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان حالیہ چند روز میں دو مرتبہ ٹیلی فونک رابطہ بھی ہو چکا ہے۔سن دو ہزار سولہ میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل افراد کے حملے کے بعد سعودی عرب نے تہران میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا جب کہ ریاض سے ایرانی سفیر کو بے دخل کر دیا گیا۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر رہی۔ سعودی عرب نے اپنی ایک اہم آئل ریفائنری پر میزائل اور ڈرون حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی جب کہ ریاض حکومت خلیجی سمندروں میں تیل کے جہازوں پر حملے کا الزام بھی تہران حکومت پر دھرتی رہی ہے۔ ایران تاہم ان تمام الزامات کو رد کرتا رہا ہے۔
چینی صدر کی سعودی ولی عہد سے گفتگو
بیجنگ/ریاض،مارچ۔چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پرایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حالیہ معاہدے سمیت متعدد موضوعات پر بات چیت کی۔چینی صدر شی جن پنگ ہی نیایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں مدد فراہم کی تھی۔ چینی ثالثی میں دونوں علاقائی حریف ممالک کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ایران اور سعودی عرب نہ صرف ایک دوسرے کے ہاں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے والے ہیں بلکہ حالیہ چند دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے بھی ہوئے ہیں۔اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان جو اس وقت سعودی عرب کے وزیراعظم بھی ہیں، نے ہمسایہ ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے چینی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات چیت میں اسٹریٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہیں مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ یہ بات اہم ہے کہ چین خلیجی ممالک کا ایک اہم تجارتی پارٹنر ہے۔شی نے کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات سے جڑے معاملات پر اشتراک عمل کے مضبوط عزم پر قائم ہیں۔ سعودی میڈیا کے مطابق شی نے خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے مزید حصہ ملانے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔یہ بات اہم ہے کہ رواں ہفتے سعودی عرب نے چین میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ دسمبر میں شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے بعد سے اب تک سعودی عرب چین کے ساتھ دو بڑے اقتصادی معاہدے کر چکا ہے۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں خطے میں سیکورٹی کی ضمانت دینے والے امریکہ کی جانب سے قدرے پیچھے ہٹنے پر تشویش کا شکار رہی ہیں۔ اس صورت حال میں خلیجی ممالک قومی سلامتی اور اقتصادی شعبے میں دیگر پارٹنر ملکوں کی تلاش میں ہیں۔دوسری جانب سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ نے ماہ رمضان میں ملاقات کا اعلان کیا ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان حالیہ چند روز میں دو مرتبہ ٹیلی فونک رابطہ بھی ہو چکا ہے۔سن دو ہزار سولہ میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل افراد کے حملے کے بعد سعودی عرب نے تہران میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا جب کہ ریاض سے ایرانی سفیر کو بے دخل کر دیا گیا۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر رہی۔ سعودی عرب نے اپنی ایک اہم آئل ریفائنری پر میزائل اور ڈرون حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی جب کہ ریاض حکومت خلیجی سمندروں میں تیل کے جہازوں پر حملے کا الزام بھی تہران حکومت پر دھرتی رہی ہے۔ ایران تاہم ان تمام الزامات کو رد کرتا رہا ہے۔