’پٹھان‘: شاہ رخ خان کی خوشیوں کا راز کیا ہے؟
ممبئی: جنوری۔ اپنی فلم ’زیرو‘ کے زیرو ہونے کے بعد شاہ رخ خان نے شاید طے کر لیا تھا کہ وہ دھماکے دار انداز میں باکس آفس پر واپس آئیں گے اور ایسا لگتا ہے کہ 25 جنوری کو ریلیز ہونے والی ان کی فلم ’پٹھان‘ ان کے اس خواب کو حقیقت کا روپ دے دے گی۔ فلم کے ایک گانے پر تنازع مگر متنازع گانے کی بے تحاشہ مقبولیت نے بظاہر فلم کو ریلیز ہونے سے پہلے ہی کامیاب بنا دیا ہے۔ دبئی کے برج خلیفہ پر شاہ رخ کی اس فلم کا ٹیزر ریلیز ہونے اور فلم کی زبردست ایڈوانس بُکِنگ اور سوشل میڈیا پر فلم کے بارے میں لوگوں کی دیوانگی سے لگتا ہے کہ فلم کامیاب ہو یا نہ ہو، لیکن اس کا پہلا ہفتہ ہنگامہ خیز رہے گا جہاں ایک جانب شاہ رخ کے دیوانے ہوں گے تو دوسری جانب بھکتوں کی بائیکاٹ مہم۔ لیکن یہ بائیکاٹ اور احتجاج کی بھی ایک الگ ہی کہانی ہے جس کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟‘ حالانکہ یہ فلم اتنی ’بدنام‘ ہو چکی ہے کہ اس کی مزید پروموشن کی بھی ضرورت نہیں مگر پھر بھی خان صاحب اپنی تسلی کے لیے پروموش کر رہے ہیں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر لوگوں کے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔ شاہ رخ کے ایک مداح نے ان سے سوال کیا کہ ’آپ کی خوشیوں کا راز کیا ہے؟‘ جواب میں شاہ رخ کا کہنا تھا کہ ’اپنی کمیوں اور محرومیوں کو خود تک ہی محدود رکھیں۔‘ شاہ رخ کے ساتھ ساتھ آج کل ان کے بیٹے آرین خان کا نام بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے لیکن کسی اور وجہ سے۔ پہلے ان کا نام ایک پاکستانی اداکارہ کے ساتھ جوڑا گیا جو انھیں نئے سال کی تقریبات کے موقع پر دبئی میں ملی تھیں جہاں انھوں نے آرین کے ساتھ لی گئی ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی۔ پھر کیا تھا تصویر وائرل ہوئی اور ساتھ ہی دونوں کی تصویر کو نام بھی دیا جانے لگا اور افواہیں اڑنے لگیں کہ آرین انھیں ڈیٹ کر رہے ہیں، لیکن جلد ہی پاکستانی اداکارہ نے میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایسا لتاڑا کہ افواہوں کا بازار وہیں تھم گیا۔ متحدہ عرب امارات کے ’سٹی ٹائمز‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے پاکستانی اداکارہ سعدیہ کا کہنا تھا کہ وہ آرین سے ملیں ان کے ساتھ تصویر بنوائی بالکل ویسے ہی جیسے دوسرے لوگ بنواتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آرین بہت اچھے اور باتہذیب انسان ہیں اور یہ کہ تمام افواہیں بے بنیاد ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بہت عجیب ہے کہ لوگ پوری بات جانے بغیر ہی کہانیاں بنانا شروع کر دیتے ہیں، خبر کے نام پر کہانی کی کوئی حد ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے دوسرا نام اداکارہ نورا فتحی کا لیا جا رہا ہے۔ آرین خان نے فلموں میں بطور ہیرو نہیں بلکہ پردے کے پیچھے رہ کر فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی فلم کی کہانی تیار ہے جس کے بارے میں آرین نے انسٹا پر لکھا تھا کہ ’کہانی تیار ہے اب ایکشن کا انتظار ہے۔‘ اور یہ کہ جلد ہی وہ اس فلم پر کام شروع کرنے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ فلمیں متنازع بنا دی جاتی ہیں اور کچھ متنازع ہوتی ہیں۔ فلسماز وویک اگنی ہوتری کی فلم ’کشمیر فائلز‘ انھی فلموں میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ پہلے فلسماز وویک اگنی ہوتری نے ٹویٹ کیا تھا کہ 95 ویں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے ان کی فلم شارٹ لِسٹ کر دی گئی ہے۔ اتنا ہی نہیں فلم کے کرداروں میں سے ایک انوپم کھیر بھی بغلیں بجاتے ہوئے ٹوئٹر پر جشن منانے لگے اور مبارکبادیں دینے لگے جس پر بحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بہرحال وویک اگنی ہوتری نے ٹوئٹر پر اس وقت خاموشی توڑ دی جب بہت سے لوگوں نے ان کی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کے آسکر کے دعویدار کی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ ٹویٹس کی طویل سیریز میں، وویک نے کہا کہ کشمیر فائلز ٹیم کو بدنام کرنے کے لیے ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ چار انڈین فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ میں حصہ لینے کے لیے شارٹ لِسٹ کیا گیا ہے جن میں ’دی ایلی فینٹ وسپرز‘، ’چیلو شو‘ وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ فلموں کو ’ریمائنڈر‘ لِسٹ میں رکھا گیا ہے اور کشمیر فائلز ان میں سے ایک ہے۔ ’ریمائنڈر‘ وہ لِسٹ ہے جس میں موجود فلموں کو اکیڈمی کے اراکین دیکھتے ہیں اور انھیں نامزدگی کا اہل ہونے کے بارے میں غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس لسٹ میں بے شمار فلمیں ہوتی ہیں اور اس فہرست میں شامل ہونے کا مطلب فلم کی نامزدگی ہرگز نہیں۔ نقادین کا کہنا ہے کہ اس فلم میں انڈیا کے زیرِ انتظام مسلم اکثریتی کشمیر میں جاری تنازع میں مسلمانوں کی جانبدارانہ اور اشتعال انگیز تصویر کشی کی گئی ہے اور فلم کو انتہائی ’اشتعال انگیز‘ کہا گیا۔ ظاہر ہے فلساز اور اس کے حامی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ گوا میں منعقدہ انڈیا کے بین الاقوامی فلم میلے کی تقریب میں فلم جیوری کے سربراہ اور اسرائیلی فلم ساز نداو لپیڈ نے کشمیر فائلز کو ’واہیات اور پراپیگینڈہ‘ فلم قرار دیتے ہوئے اسے ’شرمناک‘ تک کہا۔ ظاہر ہے اس بات پر بھی شدید ردعمل ہوا۔ مگر تمام مخالفت کے باوجود بھی اس فلم کو آسکر کے لیے بھیجنے کی کوششیں جاری رہیں اور اب یہ فلم ایک بار پھر بحث کا موضوع ہے۔