پریانکا چوپڑا: مجھے کالی بلی اور سانولی کہا گیا

میں مرد اداکاروں کے مقابلے صرف 10 فیصد پیسے کماتی تھی

ممبئی،دسمبر۔اداکارہ پریانکا چوپڑا جونس نے کہا ہے کہ انھیں اپنے 22 سال کے کیریئر میں پہلی بار مرد کوسٹار کے برابر پیسے دیے گئے ہیں۔وہ انڈیا کی ایک کامیاب اداکارہ ہیں جنھوں نے 60 سے زیادہ بالی وڈ فلموں میں کام کیا ہے۔ انھوں نے ایک دہائی قبل ہالی وڈ کے لیے کام کیا۔ امریکی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں اب تک بہت گنے چنے انڈین اداکار کامیاب کیریئر بنا پائے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بالی وڈ میں مجھے کبھی مرد اداکار جتنی تنخواہ نہیں دی گئی۔ ’مجھے مرد کوسٹار کے مقابلے صرف 10 فیصد تنخواہ ملتی تھی۔‘وہ کہتی ہیں کہ خواتین اداکاراؤں اور مرد اداکاروں کی آمدن میں بہت واضح فرق ہے۔ ’کئی خواتین اب بھی بھی اس سے متاثرہ ہیں۔‘پریانکا چوپڑا کہتی ہیں کہ ’میری نسل کی دوسری اداکاراؤں نے بھی برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم نے اس کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں مگر ہمیں برابری نہیں مل سکی۔‘ان کا نام 2022 میں بی بی سی کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انڈین فلم انڈسٹری میں بطور نوجوان اداکارہ انھوں نے پدرشاہی نظام کو ’معمول‘ سمجھ کر قبول کیا تھا۔’میں گھنٹوں سیٹ پر بیٹھی رہتی تھی اور میرے لیے یہ ٹھیک تھا جبکہ مرد کوایکٹر اپنا وقت لیتے تھے، اپنی مرضی سے سیٹ پر آتے تھے اور یہ فیصلہ کرتے تھے کہ شوٹنگ کب شروع ہو سکے گی۔‘پریانکا نے بی بی سی کو بتایا کہ 22 سال کے کیریئر میں پہلی بار انھیں مردوں کے برابر تنخواہ دی گئی ہے جو کہ بالی وڈ میں ان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ کیریئر کے آغاز میں انھیں ان کی رنگت کی وجہ سے باڈی شیم کیا جاتا تھا۔ ’مجھے کالی بلی اور سانولی کہا گیا۔ ایک ایسے ملک میں سانولی سے کیا مراد ہے جہاں ہم سب گندمی رنگت کے ہیں۔‘’میں سوچتی تھی کہ شاید میں اتنی خوبصورت نہیں۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے زیادہ محنت کرنی ہوگی، حالانکہ مجھے لگتا تھا کہ میں گوری رنگت والے اپنے ساتھی اداکاروں سے کچھ زیادہ باصلاحیت ہوں مگر میں نے اسے سچ مانا کیونکہ اس تصور کو اس قدر عام کیا گیا تھا۔‘پریانکا نے بتایا کہ ’ظاہر ہے یہ ہماری نوآبادیاتی تاریخ سے آتا ہے۔ برطانوی راج ختم کیے گئے 100 سال بھی نہیں ہوئے مگر ہم اب بھی اس تصور سے جڑے ہوئے ہیں۔’مگر ہماری نسل کو ایسے تعلق توڑنے ہوں گے تاکہ اگلی نسل گوری رنگت کو ترجیح دینے کے خیال کو نہ اپنا سکے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ ہالی وڈ میں تنخواہ میں برابری کے حوالے سے کیا حالات ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ’میرے ساتھ پہلی بار یہ ہالی وڈ میں ہی ہوا۔ تو مجھے نہیں معلوم آیا آگے بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘’کیونکہ یہ پہلا شو ہے جس میں ایک مرد ایکٹر میرا کو لیڈ ہے۔‘ وہ جاسوسی پر مبنی سیریز سٹاڈیل میں اپنے مرکزی کردار کے حوالے سے بات کر رہی تھیں۔جنوبی ایشیا میں ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں مگر اس کے باوجود پریانکا کو بیرون ملک خود کو منوانے کے لیے ایک دہائی تک سخت محنت کرنی پڑی۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں خود ملاقاتیں کرتی تھی، اپنے آپ کو متعارف کراتی تھی اور اپنی شو ریل ساتھ لے جاتی تھی۔ میں ایکٹنگ کوچز اور ڈائیلکٹ کوچز کے ساتھ کام کرتی رہی۔’میں نے آڈیشنز دیے، مجھے مسترد بھی کیا گیا۔ روتی تھی اور پھر دوبارہ اگلے آڈیشن کے لیے جاتی تھی۔ میں نے نئی صنعت میں کامیاب ہونے کے لیے محنت کی۔ یہ تجربہ میرے لیے فخر کا باعث ہے۔‘سال 2015 میں پریانکا چوپڑا پہلی جنوبی ایشیائی اداکارہ بنیں جنھوں نے امریکی ٹی وی شو میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ ان کی تھریلر سیریز ’کوانٹیکو‘ تھی۔ وہ کئی معروف عالمی فیشن میگزینز کے کوور (سرورق) پر آنے والا پہلا انڈین چہرہ بھی بنی تھیں۔مگر وہ کہتی ہیں کہ متنوع ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے آگاہی کے باوجود ان کی نسل کے لوگوں کو ہالی وڈ میں مین سٹریم کام ملنا مشکل ہے۔’مجھے لگتا ہے کہ شاید میں نے اپنی کچھ ساکھ پیدا کی ہے اور میں دلچسپ کام کر رہی ہوں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا اسے تسلیم کیا جاتا ہے یا نہیں۔ ہالی وڈ میں جنوبی ایشیائی یا انڈین ہونا بہت مشکل ہے۔ ہمیں اب بھی کئی مراحل سے گزرنا ہے۔‘پریانکا یقیناً ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت ہیں جو بین الاقوامی تقاریب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔انڈیا کے مقامی مسائل پر آواز نہ اٹھانے پر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ جب ان سے اس تنقید کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کے پبلیسسٹ نے مداخلت کرتے ہوئے انھیں اس کا جواب دینے سے روک دیا۔اس سے قبل سوشل میڈیا پر مثبت اور منفی توجہ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ’آپ نے کسی چیز کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا۔‘’یا آپ کو ’اس بارے میں کچھ تو کہنا چاہیے تھا۔‘ یہ اسی طرح ہے کہ آپ ہمیشہ سب کو خوش نہیں کرسکتے۔‘پریانکا چوپڑا نے لکھنؤ میں بی بی سی کی 100 خواتین کی فہرست کی ٹیم سے بات چیت کی جہاں وہ یونیسیف کی عالمی ’گڈ ویل‘ سفیر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہاں انھوں نے صحت کے مراکز اور سکولوں کا دورہ کیا اور نوجوان طالبات سے ملاقاتیں کی ہیں۔وہ گذشتہ 15 سال سے یونیسیف کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور انڈیا کے علاوہ زمبابوے، ایتھوپیا، اردن، بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں کا دورہ کرتی ہیں۔ وہ بچوں سے ملاقاتیں کرتی ہیں جو جھڑپوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ ایک عوامی شخصیت ہوں تو لوگوں کو دلچسپی ہوتی ہے کہ آپ کہاں ہو اور کہاں جا رہے ہو۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ میں اسی میں اپنا مقصد حاصل کر لیتی ہوں۔‘’اگر مجھے ایک پلیٹ فارم مل جائے جہاں میں ان سرگرمیوں اور بچوں کو درپیش مسائل پر بات کر سکوں اور یہ کہ وہ کیسے اس سے نمٹ سکتے ہیں۔۔۔ شاید اس طرح جو لوگ مجھے دیکھتے ہیں وہ یہ پیغام بھی دیکھ سکیں گے۔‘’تو میں لوگوں کو آوازوں کو تقویت دیتی ہوں، خاص کر بچوں کی، جن کی آوازیں دور تک نہیں جا پاتیں۔ یہ میری زندگی کی بہترین نوکری ہے۔‘

Related Articles