پاکستان کو 58 ہزار کروڑ کا قرض دے کر چین نے پھنسایا

اسلام آباد، فروری ۔ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑے پاکستان کو چین نے ایک دو نہیں بلکہ 2.5 لاکھ کروڑ روپے کے قرض تلے دبا دیا ہے۔امریکہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے انکار کے بعد چین نے 70 کروڑ ڈالر یعنی 58 ہزار کروڑ روپے کا قرض دیا۔چین نے پاکستان کو یہ بیل آؤٹ ایسے وقت میں دیا ہے، جب آئی ایم ایف جیسے اداروں نے ہاتھ کھڑے کردئے تھے۔ چین سے ملنے والے اس قرض سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 20 فیصد اضافہ ہوگا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کی رات ٹویٹ کیا کہ چین نے پاکستان کو 58 ہزار کروڑ روپے کا قرض دیا ہے۔چین کی طرف سے دیئے گئے اس قرض سے پاکستان کو فوری طور پر راحت ملے گی، لیکن اس سے پاکستان پرمزید بوجھ بڑھے گا۔ دی گارڈین کے مطابق، پاکستان اس وقت 100 ارب ڈالر یعنی 8.3 لاکھ کروڑ روپے کے قرض تلے دبا ہے۔ اس میں چین کا حصہ 30 فیصد ہے۔اطالوی تنظیم اوسرویوریا گلوبلائزون کے مطابق چین نے یہ نیا قرض اس شرط پر دیا ہے کہ وہ لاہور اورنج لائن پروجیکٹ کے لئے ملنے والے 5.56 کروڑ ڈالر کا ری پیمنٹ نومبر 2023 تک کردے۔دی گارڈین کے مطابق چین نے 700 ملین ڈالر کا جوقرض دیا ہے وہ پاکستان کے کل قرضوں کا 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چین دوسرے قرض دہندگان سے زیادہ سود وصول کرتا ہے۔پاکستان اب بھی مغربی ایشیائی بینک کا 8.77 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اس میں بینک آف چائنا، آئی سی بی سی اور چائنا ڈیولپمنٹ بینک شامل ہیں۔ چینی کمرشل بینک دوسرے قرض دہندگان کے مقابلے میں 5.5 سے 6 فیصد پر قرض دیتے ہیں۔ وہیں دوسرے ملک کے بینک تقریباً 3 فیصد فیصد سود پر قرض دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چین ساہوکاروں کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔جب بات دو طرفہ قرضوں کی ہو تو چین مختصر مدت کے لیے زیادہ شرح سود بھی وصول کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی، جاپان اور فرانس ایک فیصد سے کم شرح سود پر قرض دیتے ہیں جبکہ چین 3 سے 3.5 فیصد سود پر قرض دیتا ہے۔سال 2021-2022 میں، پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر کے قرض پر چین کو بطور سود تقریباً 150 ملین ڈالر یعنی 1.3 ہزار کروڑ روپے ادا کرنے پڑے۔ وہیں 2019-2020 میں، پاکستان کو 3 ارب ڈالر کے قرض پر 120 ملین ڈالر یعنی 995 کروڑ روپے بطور سود چکانے پڑے۔ اس کے علاوہ بیجنگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پی ای سی کے لیے پاکستان کو خطیر رقم قرض کے طورپر دی ہے۔جب پاکستان سے رقم کی وصولی کی بات آتی ہے تو چین سخت قدم اٹھانے سے بھی باز نہیں آتا، یعنی انتہائی سخت رویہ اپناتا ہے۔ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی مثال سے اسے ہم سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں چینی سرمایہ کار کو نئی سرمایہ کاری لانے کے لیے موجودہ پروجیکٹ کے اسپانسر سے متعلق تمام مسائل کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔پاکستان میں کچھ چینی پروجیکٹس کو اپنے قرضوں کے لئے انشورنس نہیں مل رہا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان نے انرجی ایکٹر کے بھاری بھرکم یعنی 1.2 لاکھ کروڑ روپے کے قرض میں پھنسے ہونے کو بتایاجاتا ہے۔پاکستان کو چینی پاور پروڈیوسرز کو تقریباً 1.3 ارب ڈالر یعنی 11 ہزار کروڑ روپے ادا کرنے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان اب تک صرف 28 کروڑ ڈالر یعنی 2.3 ہزار کروڑ روپے کا قرض واپس کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔دسو ڈیم منصوبے کے معاملے میں بھی چین، پاکستان کے ساتھ سختی سے پیش آچکا ہے۔ پچھلے سال چین نے دسو ڈیم دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے 36 انجینئروں کے اہل خانہ کے لیے 38 کروڑ ڈالریعنی315 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔چین نے شرط رکھی تھی کہ معاوضہ ملنے کے بعد ہی منصوبے پر کام شروع کیا جائے گا۔ اس کے بعد چین کو خوش کرنے کے لیے پاکستان نے معاوضے کے طورپر 11.6 ملین یعنی 96 کروڑ روپے دینے کو تیار ہوگیا۔کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان اب سری لنکا کی راہ پرہے۔

Related Articles