نجلا بودن رمضان تیونس کی پہلی خاتون وزیر اعظم
تیونسیہ،ستمبر۔تیونس کے صدر نے وزیر اعظم کی برطرفی اور پارلیمان تحلیل کرنے کے دو ماہ بعد ایک خاتون کو نئی حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔ قدرے غیر معروف نجلا بودن رمضان تیونس کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہوں گی۔تیونس کے صدر قیس سعید نے منتخب حکومت کی برطرفی اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے تقریبا ًدو ماہ بعد نجلا بودن رمضان نامی ایک خاتون کو وزیر اعظم مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح وہ تیونس کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئی ہیں۔صدر نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اس کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے، صدر مملکت قیس سعید نے نجلا بودن کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے نئی حکومت تشکیل دینے کا اختیار دیا ہے۔ قیس سعید نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ تیونس کی تاریخ میں، پہلی بار ایک خاتون وزیر اعظم حکومت کی قیادت کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ، کئی ریاستی اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی اور افراتفری سے نمٹنے کے لیے مضبوط عزم کے ساتھ رمضان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔اطلاعات کے مطابق نجلا بودن کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں تاہم وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور ورلڈ بینک کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ صدر نے بھی اپنے اس فیصلے کے بارے میں کوئی خاص معلومات فراہم نہیں کی کہ آخر انہوں نے کن اسباب کے بناپر نجلا بودن کو وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔
نجلا کون ہیں؟تریسٹھ سالہ نجلا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں تاہم اتنا معلوم ہے کہ وہ انجینئرنگ کے شعبے کی محقق ہیں۔ وہ تیونس کے مرکزی علاقے کیراؤن میں سن 1958 میں پیدا ہوئی تھیں اور دارالحکومت کے ہی نیشنل اسکول آف انجینئرنگ میں پروفیسر ہیں۔سن 2011 میں انہیں اعلی تعلیم کی وزارت میں سربراہ مقرر کیا گیا تھا تاہم انہیں سیاست کا نہ تو کوئی خاص تجربہ ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی فکر کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات ہیں۔
جمہوریت خطرے میں:نجلا بدون رمضان ایک ایسے وقت اعلی سیاسی عہدے پر فائز ہو رہی ہیں جب ملک شدید سیاسی بحران سے دو چار ہے۔ دو ماہ قبل ہی صدر نے یکطرفہ اقدام کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرکے پارلیمان کو بھی تحلیل کر دیا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے صدر کے اس اقدام کو بغاوت کا نام دیا ہے۔سن 2019 میں صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران قیس سعید کو ایک بہت ہی با وقار قانون کے پروفیسر کے طور پر بڑی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بایاں محاذ اور اسلامی پارٹیوں سمیت تقریبا ًتمام سیاسی جماعتوں نے ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ان پر کئی حلقوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ کبھی پولیس کی زیادتیوں کے حوالے سے تو کبھی کورونا وائرس کی وبا پر صحیح طرح سے کنٹرول حاصل نہ کرنے کے لیے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ملک اس وقت شدید معاشی بحران سے بھی دو چار ہے۔ اس برس کے اوائل میں ہی ان کی انتظامیہ کے خلاف دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے تھے جنہیں کچلنے کے لیے فورسز نے طاقت کا بے جا استعمال کیا پھر بعد میں 25 جولائی کو صدر نے پارلیمان کو ہی تحلیل کرنے کا متنازعہ فیصلہ کر لیا۔ گزشتہ ہفتے ہی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ ملک کی انتظامیہ خود ہی چلائیں گے۔ گزشتہ روز ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سعید قیس سے فون پر بات کی تھی اور ملک کے استحکام کے لیے جمہوریت کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ چانسلر کے ترجمان اسٹیفین زیبریٹ کے مطابق انگیلا میرکل نے صدر سے کہا تھا کہ وہ، پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات شروع کریں۔