منفی سوچ اور منفی لوگ آپ کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیںگے!
نقی احمد ندوی ، ریاض، سعودی عرب
یہ تو آپ کو پتہ ہے کہ گلشن میں پھول اگانے کے لیے مالی کو کتنی محنت کرنی پڑتی ہے، مہکتا ہوا گلاب، مسکراتی ہوئی چمبیلی، قہقہے لگاتے ہوئے گیندے ، مختلف قسم کی خوشبو بکھیرتی کلیاں کسی کی روزانہ محنت ، توجہ اور مشقت وجانفشانی کا نتیجہ ہوتی ہیں، مگر اسی گلشن میں آپ نے کبھی کسی مالی کو گھاس اگاتے دیکھا ہے۔ قسم قسم کے گھاس خود بخود نکلتے رہتے ہیںجن کو مالی وقفہ وقفہ سے خود اکھاڑ کر پھینکتا ہے تاکہ گلشن کے خوبصورت پھول پودے محفوظ رہیں اور ان کی افزائش ہوتی رہے ، اگر مالی خود سے پیدا ہونے والے ان غیرمطلوب پودوں کو نہ اکھاڑے تو گلشن گلشن نہیں جنگل بن جائے گا۔بعینہ یہی صفت انسانی دماغ کی ہے۔ انسان کو اپنے دماغ میں اچھے افکار وخیالات کو ٹھہرانے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ مگر منفی اور نگیٹیو خیالات ہر وقت خود بخود پیدا ہوتے رہتے ہیںجن کو روکا نہیں جا سکتا، ریسرچ بتاتا ہے کہ ایک انسان ہر روز خود اپنے آپ سے پچاس ہزار سے زیادہ باتیں کرتا ہے اور ان میں سے بیشتر خود کلامی ہوتی ہے اور نفسیاتی محققین کے مطابق ان میں سے اسی فیصد منفی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔۔ وہ لوگ مجھے پسند نہیں کرتے۔۔۔ مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔۔ میری شکل اچھی نہیں ہے۔۔۔ میں دوسروں کی طرح لمبا نہیں ہوں۔۔ میرا ذہن کمزور ہے۔۔۔ میں مقرر نہیں بن سکتا۔۔۔ میں ہمیشہ ہر چیز میں لیٹ رہتا ہوں۔۔۔ میری قسمت ہی خراب ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی منفی خیالات جب انسان پر حاوی ہو جاتے ہیں تو وہ ڈپریشن میں چلا جاتا ہے، سب سے پہلے آپ کوتسلیم کرنا چاہیے کہ منفی خیالات فطری ہیں اور بس ہمیں انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔ منفی افکار وخیالات تین عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔۱۔ ماحول۔ آپ کے گھر، اسکول، کالج، مدرسہ اور کام کی جگہ آپ کے خیالات کی تشکیل میں بہت بڑا رول ادا کرتے ہیں۔ آپ کا مذہبی اور ثقافتی بیک گراؤنڈ، اور میڈیا جیسے ٹیلی ویژن، نیوزپیپر، میگزین، ریڈیو اور فلمیں آپ کی شخصیت کو بناتی یا بگاڑتی ہیں۔۲۔ تعلیم۔ آپ کو جو شب وروز تعلیم دی جاتی ہے اس کا اثر آپ کی فکر، سوچ اور زندگی پر پڑتا ہے۔۳۔تجربات۔ آپ کا ذاتی تجربہ کسی بھی شخص یا قوم یا کسی چیز کے ساتھ جیسا ہوتا ہے، ویسی ہی آپ کی سوچ اور فکر کی تشکیل ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص کے ساتھ آپ کا جھگڑا ہو گیا تو اس شخص کے تئیں آپ کے ذہن میں جو تصویر بنتی ہے وہ منفی ہوتی ہے۔اگر آپ کو زندگی میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنا ہے اور کامیابی حاصل کرنی ہے تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ آپ اپنے منفی خیالات پر نہ صرف یہ کہ کنٹرول کریں بلکہ ان کے ذرائع کا سدباب کرنے کی بھی بھرپور کوشش کریں۔سب سے پہلے اپنا نظریہ بدلنے کی کوشش کریں، ہر چیز میں مثبت اور منفی دونوں چیزیں موجود ہیں۔ آپ ہمیشہ مثبت ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ صرف عیب تلاش کرتا ہے ، اس لیے آپ کوشش کریں کہ ہرواقعہ یا حادثہ کا انسان کے اندر مثبت چیزوں کو تلاش کریں اور اسے مثبت انداز میں دیکھنے کی کوشش کریں۔دوسرا یہ کہ منفی لوگوں سے ممکن حد تک دور رہنے کی کوشش کریں ۔ آپ کے بہت سارے احباب، دوست یار اور رشتہ دار ہوں گے جو صرف نگیٹیو باتیں کرتے ہوں گے۔ ان سے اگر تعلقات ختم نہیں کیے جا سکتے تو کم سے کم اس حدتک محدود ضرور کیے جا سکتے ہیں کہ ان کا آپ کی ذات پر کم سے کم اثر ہو۔ ایسے لوگوں کا کام صرف عیب ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز میں عیب نکال لیں گے اور ایسے لوگ آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے۔ یہ لوگ شکایتوں کا پٹارہ ہوتے ہیں، ان کو صرف تاریکی دکھائی دیتی ہے۔ دوسروں کو خوشیاں وہ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کو اپنے استاذ، دوسرے محنتی طلباء، نصاب تعلیم، طریقہ تدریس اور منیجمنٹ میں صرف برائی نظر آتی ہے۔ وہ ہمیشہ ماضی پر روتے، حال کا مذاق اڑاتے اور مستقبل سے گھبراتے ہیں۔ اگر آپ مدرس اور محقق بننا چاہتے ہیں تو وہ کہیں گے کہ اتنی معمولی تنخواہ سے تمہارا پیٹ کیا بھرے گا۔ اگر آپ نے پروفیسر اور لیکچرر بننے کا پلان بنایا ہے تو وہ عرض کریں گے کہ سرکاری Vacancies نکلتی ہی نہیں۔ لہٰذا یہ خواب تو کم سے کم چھوڑ ہی دو۔ اگر آپ ڈاکٹر کا خواب دیکھیں گے تو ان کی دلیل ہو گی کہ تمہیں سائنس تو آتی نہیں، بایولوجی پڑھا نہیں۔ لہٰذا دن میں خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ غرض یہ کہ ایسے نگیٹیو لوگ آپ کے ذہن ودماغ کو بری طرح متاثر کرتے رہیں گے اور آپ کی پیش رفت میں رکاوٹ بنیں گے۔ ایسے لوگ جب تک آپ کے آس پاس ہونگے اس وقت تک آپ اپنے کام پر فوکس نہیں کرسکتے، ایسے منفی لوگوں کی لسٹ بنائیں اور ان کا نام اپنے لسٹ سے ایک ایک کر کے خارج کرتے جائیں تاکہ وہ آپ کی ترقی اور کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ تیسرا یہ کہ میڈیا اور خاص طور پر شوشل میڈیا سے دوری بنانے کی کوشش کریں۔ آج کے دور میں میڈیا اسّی فیصد صرف منفی چیزوں کو دکھاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق امریکہ میں ایک بچہ ہائی اسکول مکمل کرنے تک بیس ہزار گھنٹہ ٹیلی ویژن پر خرچ کر چکا ہوتا ہے۔ اس دوران وہ پندرہ ہزار قتل کے واقعات اور ایک لاکھ منشیات سے متعلق کمرشیل ایڈ دیکھ چکا ہوتا ہے۔ ٹیلی ویژن میں شراب نوشی کو ایک فن، سیگریٹ نوشی کو ایک وقار اور ڈرگس کو ایک بہتر عادت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جرائم کی شرح رکنے کا نام نہیں لیتی۔لہٰذا اگر آپ اپنے کسی مقصد پر فوکس کرنا چاہتے ہیں تو میڈیا کے منفی اثرات سے بچنا ہوگا، کیونکہ میڈیا بھی آپ کی عملی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے، آپ کسی کے قتل کی تصویر یا ویڈیو دیکھ لیں تو کئی گھنٹے تک وہ تصویر آپ کے ذہن میں گردش کرتی رہے گی، اسی لیے میڈیا کا استعمال کم کریں یا بلکل نہ کریں۔چوتھا یہ کہ بحث ومباحثہ سے بچیں۔یہ بیماری عام لوگوں میں عمومی طور پر پائی جاتی ہے ۔ بیشتر لوگ بلاوجہ بحث ومباحثہ کی جنگ کرتے نظر آتے ہیں ۔ کبھی سیاسی پارٹیوں پر آپس میں گھنٹوں بحث ہوتی ہے تو کبھی مسلک ومذہب پر۔ حنفی اور شافعی، شیعہ اور سنی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت اور نہ جانے دوسرے کتنے غیر اہم امور پرہم میں سے بیشترلوگ بحث ومباحثہ کی محفلیں گرم کرتے ہیں اور اسکا حاصل وقت اور انرجی کی ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تبادلۂ خیال اور بحث میں فرق یہ ہے کہ تبادلۂ خیال میں معلومات اور انفارمیشن کا تبادلہ ہوتا ہے جو دونوں پارٹیوں کے لیے مفید ہے ، مگر اس کے برخلاف بحث ومباحثہ میں ہر پارٹی دوسرے کو زیر کر نے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ آخر میں رشتہ خراب ہونے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ اس لیے اگر آپ کامیاب بننا چاہتے ہیں تو آج ہی سے بحث ومباحثہ کی محفلوں میں شرکت کرنا بند کردیجیے ۔ کسی بھی شعبہ میں کامیابی حاصل کرنے یا کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے آپ کو منفی افکاروخیالات اور منفی لوگوں سے مکمل طور پر بچنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ دونوں آپ کی قوت کارکردگی، عملی صلاحیت اور کچھ کرگذرنے کے جذبہ کو سبو تاز کرتے ہیں اور کامیاب لوگوں کی بہت ساری صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ منفی سوچ پر قابو رکھتے ہیں اور منفی لوگوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔