ملک کا مستقبل باصلاحیت نوجوانوں کے ہاتھوں میں
عارف عزیز( بھوپال)
دنیا میں نوجوانوں کی سب سے کثیر تعداد ہندوستان میں ہے، عمر کے حساب سے کئے گئے سروے کے مطابق افریقہ کم عمر اور شمالی یوروپ قابل لحاظ ضعیف ہے۔ برطانیہ میں نوجوانوں کی تعداد ہندوستان میں نوجوانوں سے دس فیصد کم ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی عالمی آبادی رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نوجوانوں کی سب سے زیادہ آبادی والا ہندوستان کا موقف زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گا اور ۲۰۵۰ تک نوعیت بدل جائے گی اور نوجوانوں کی عالمی آبادی کا اوسط ہندوستان کی نوجوانوں کی آبادی سے بڑھ جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۶۵ تک نوجوانوں کی تعداد کم ہونے لگے گی اِس وقت نوجوانوں کی آبادی ایک اعشاریہ ۸ ملین ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ نوجوان میں اختراعی ذہن اور جینے کی بھرپور امنگ اور کچھ کر گزرنے والے نوجوان ہی مستقبل کے معمار ہیں لیکن نوجوان مستقبل اُس وقت سنوار سکتے ہیں جب اُن میں صلاحیت ہو، ہنر ہو، صحت ہو، فیصلہ سازی کی قوت ہو اور وہ زندگی میں زیادہ حقیقت پسند ہوں۔ عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر معمولی طور پر نوجوانوں کی آبادی میں اضافہ کا کسی بھی ملک پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ اثرات مثبت ہوں گے یا منفی اِس کا دارومدار اِس بات پر ہے کہ کس خوبی سے حکومتیں نوجوان نسل کی ضروریات کی تکمیل کرتی ہیں اور کس طرح نوجوانوں کو شہری اور معاشی امور میں مصروف اور منہمک کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہر سال لیبر فورس میں تقریباً ۳۱ ملین نوجوان شامل ہورہے ہیں۔ حکومت ہند کے اعداد و شمار کے مطابق مردم شماری کے دوران ۱۱۳ ملین عوام نے بتایا کہ وہ کام و روزگار کے خواہاں ہیں، تشویشناک بات یہ ہے کہ کسی فن و ہنر کے بغیر نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہورہے ہیں، ہائی اسکولوں کے تین فیصد سے بھی کم نوجوان پیشہ وارانہ تعلیم یافتہ ہیں، سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد صرف بیس فیصد سے کچھ زائد ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں معیار تعلیم کی سطح کیا ہے۔ ہندوستان میں ہنر مندی اور کاریگری کی سطح بہت پست ہے۔ نتیجہ میں ایسی کئی جگہیں خالی پڑی ہیں، جہاں ہنر مندوں کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں عزائم تو ہیں صلاحیت نہیں ہے اور عزائم صلاحیت کا بدل نہیں ہوسکتے، اگر نوجوانوں میں عزم و صلاحیت یکساں موجود ہو تو وہ ہر شعبہ جات میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں۔ ہندوستان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن گھرانوں میں دولت کی ریل پیل ہے وہاں نوجوان تعلیم اور ہنر مندی میں پیچھے ہیں اور ایسے طبقات میں ذہین نوجوان موجود ہیں جو اعلیٰ تعلیم اور ہنر حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے اُن کے پاس دولت اور وسائل کا فقدان ہے، نہ ہی وہ بڑھی چڑھی فیس اور ڈونیشن ادا کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعلیم و تدریس کے انتظام کے لئے کوئی مدد کرنے آگے آتا ہے، نتیجہ میں اُن کے بہتر روشن مستقبل کے سارے خواب بکھر کر رہ جاتے ہیں، کورونا کی وبا نے اِسے مزید سنگین بنا دیا ہے لہٰذا ان اداروں کے کار خیر کو وسعت دینے کی ضرورت ہے جو ذہین طلبہ کا مستقبل سنوارنے میں اپنے طور پر مدد کر رہے ہیں۔ موجودہ سماج میں نوجوان ہر شعبہ حیات میں ناگزیر بن کر ہی اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں۔ اِس کے لئے تعلیم اور فنّی مہارت کے ساتھ خوش اخلاقی ضروری ہے۔ نوجوانوں میں ناکامی پر حد درجہ مایوسی کا رجحان ختم کیا جانا چاہئے۔