معاملہ عہدہ سے محرومی تک جا سکتا، نیتن یاھو کے لیے مشکل بحران

تل ابیب،جنوری۔بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی حکومت کے قیام کو چند ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کشتی کو باد مخالف کا سامنا ہے اور وہ ڈول رہی ہے۔نئے وزیر اعظم کو اپنے اور وزیر اری دعری کے درمیان جڑے ہوئے تعلقات اور مفادات کی وجہ سے اپنے فرائض جاری رکھنے سے روکنے کی تجویز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔دعری کو اسرائیلی سپریم کورٹ نے ٹیکس کے جرم میں سزا پانے کے بعد وزارتی عہدوں پر فائز ہونے سے نااہل قرار دے دیا تھا۔اسرائیلی براڈ کاسٹنگ اتھارٹی کے مطابق چوری کے جرائم میں ملوث ہونے پر نیتن یاھو نے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔ذرائع نے مزید کہا کہ اسرائیل میں اٹارنی جنرل کا دفتر اور حکومت کے قانونی مشیر کا دفتر نیتن یاہو کو نااہل قرار دینے کے اقدام کو مسترد نہیں کرتا، یہ صورتحال نیتن یاھو کو عہدے پر برقرار رہنے سے روک رہی ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت ایک ایسے بحران کی نشاندہی کرتی ہے جو اسرائیل میں حکومتی اتحاد کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب ’’ شاس‘‘ پارٹی کے سربراہ ارییہ دعری دستبردار ہو جائیں جبکہ نیتن یاھو انہیں متبادل وزیر اعظم بنانے پر غور کر رہے ہیں تاکہ اسرائیلی عدالت کے فیصلے کو روکا جا سکے۔کمیشن نے مزید کہا کہ مفادات کے تصادم کی وجہ سے نیتن یاھو کی اقتدار سے دستبرداری ممکن ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو کی جانب سے ایسی عدالتی اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے دعری کو حکومت میں وزیر کے طور پر مقرر کیا جا سکے گا۔دوسری طرف لیکود پارٹی اس لمحے تک بحران کے مناسب حل کی منصوبہ بندی نہیں کر رہی ہے۔ بلکہ اندازہ ہے کہ نیتن یاہو دعری کو حکومتی اجلاسوں میں بطور مبصر مدعو کریں گے جب تک کہ وہ حکومت میں ان کی نمائندگی کی رکاوٹ کو دور نہیں کر لیتے۔ خیال رہے کہ اسرائیل میں گزشتہ ہفتوں کے دوران تین بڑے شہروں میں دسیوں ہزار افراد نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے عدالتی اصلاحات کے منصوبوں کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔ منتظمین نے ان پر دوبارہ انتخاب جیتنے کے ہفتوں بعد جمہوری طرز حکمرانی کو کمزور کرنے کا الزام بھی لگایا۔نیتن یاہو جو اپنی چھٹی مدت میں مضبوط پارلیمانی اکثریت کے ساتھ قومی مذہبی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں سپریم کورٹ کو لگام دینا چاہتے ہیں۔ اس معاملہ کو انہوں نے حکومت کی تین شاخوں کے درمیان توازن کو بحال کرنے کے طور پر بیان کر رکھا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ مجوزہ اصلاحات عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹ بنیں گی، بدعنوانی کو فروغ دیں گی، اقلیتوں کے حقوق کو رول بیک کریں گی اور اسرائیلی عدالتی نظام کو بیرون ملک جنگی جرائم کے الزامات سے نمٹنے میں مدد کرنے کے قابل بنانے سے دور کریں گی۔مزید برآں اسرائیلی میڈیا نے اس وقت القدس اور حیفا میں ہونے والے دو احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد کے علاوہ احتجاج میں حصہ لینے والوں کی تعداد تقریباً 80 ہزار بتائی ہے۔

Related Articles