لورن کے قدرتی حسن وجمال سیاحوں کی آمد کے منتظرہیں
سلمی راضی-منڈی، پونچھ
جموں وکشمیر ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ اس کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ملک کاسب سے خوبصورت علاقہ دہشت گردی کی وجہ سے ہی سرخیاں کیوں بنتا ہے؟اس کی خوبصورتی کی چرچہ کیوں نہیں ہوتی ہے؟جبکہ خود قدرت نے اس کے حسن کو سنوارا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک اور بیرون ملک کے سیاح یہاں آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے وہ یہاں کے خوبصورت علاقوں سے لاعلم ہوتے ہیں۔آج میں بات کرونگی جموں کے سرحدی علاقہ پونچھ کے لورن کی۔اس کے حسن و جمال کی۔وہاں کے باشندوں کی،ان کے روزگار اور مشکلات کی۔سیاحت کے نقطہ نظر سے اس کی اہمیت کی۔ گزشتہ دو سالوں سے شعبہ سیاحت کو جس طرح سے فروغ دینے اور اس پر کام کرنے کا اعزم تھا۔وہ کویڈ 19نے چکنہ چور کردیاہے۔اب جب تک کچھ ہونے کی امیدہوگی تب تک لورن کی حسین وادیوں کو انتظار میں ہی شائید رہنا پڑے۔جموں و کشمیر کے طول و عرض میں حسین و جمیل آبشار اور وادیاں بلند و بالا پہاڑیوں کو چیرتے ہوئے ہوئے دودھ کی طرح سفید، برف کی طرح ٹھنڈی، جڑی بوٹیوں کی آمیزش سے لبریز دریا اور نالے رواں دواں ہیں۔ لیکن کبھی یہ خوبصورت دریا اور نالے یہاں کے مکینوں کے لئے پریشانی اور موت کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔جموں کشمیر کے ضلع پونچھ سے مشرق کی جانب تحصیل منڈی کا بلاک لورن واقع ہے۔جس کو کسی زمانہ میں لوہر کوٹ کہاجاتاتھا۔ جو بلاک گیارہ پنچائیتوں پر مشتمل ہے۔ 95 فیصد حصہ پہاڑی اور برفانی سلسلہ ہے۔ 50 سے 60 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔اور بلند وبالا چوٹیوں پر سال بھر برف جمی رہتی ہے۔ملازم پیشہ افراد کا تناسب قریب چھ سے سات فیصدی ہے۔ اور نوے فیصد لوگ ذمہ داری اور مزدوری پیشہ سے منسلک ہیں۔غریبی سطح سے نیچے گزر بسر کرنے والی اس آبادی کو اگر سیاحت سے جوڑا جاے تو یہاں کی قریب نصف آبادی اپناروزگار یہیں کما سکتی ہے۔نندی چھول تک جانے کے لئے پونچھ سے 32 کلومیٹر لورن وہاں سے قریب 5پانچ کلومیٹر سلطان پتھری،جہاں سے قریب تین کلومیٹر پیدل سفر کرکے انسان نندی چھول ابشار تک پہنچ سکتاہے۔اس پیدل سفر کے دوران جو لطف اتاہیوہ دنیاکے کسی بڑے سے بڑے شہر کے باغ میں سیروتفریح کے دوران بھی نصیب نہیں ہوتاہے۔اس حوالے سے ایک نوجوان انجم چوہدری جن کی عمر 25سال ہے انہوں نے کہا کہ کسی علاقع کو ترقی اورخش حالی کی طرف گامزن کرنا عوامی نمائیندگان کا کام ہوتاہے۔ لیکن ابھی تک ہمارے یہ سیاسی قائدین آزادی کے پچہتر سال بعد بھی عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوے ہیں۔ لورن ایک خوبصورت علاقع ہے۔جس کا چپہ چپہ ہر موسم ایک الگ نظارہ پیش کرتاہے۔ لورن کی پنچائیت مہارکوٹ کی چوٹی ہویاکہ مولسر سراں ہو کہ نندی چھول آبشار،ہر موسم ایک نیا اور سوہانہ منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں اس علاقع کی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوے یا کہیں پڑھ سن کر جو بھی سیلانی یا سیاح اس علاقع میں نمودار ہوتاہے تو دوبارہ آنے کی زحمت نہیں کرتاہے۔وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہاں رہنے،ٹھہرنے، اور رکنے کھانے پینے کا نظم میسر نہیں ہوسکتا ہے۔ جس کے لئے نہ ہی کبھی یہاں کے چنیدہ نمائیندگان اور نہ ہی انتظامیہ نے توجہ دی ہے۔ اگر ہمارے یہاں کہ پہلے ایم، ایل، اے، یا ایم، ایل، سی،اور اب یونین ٹیراٹری میں بلاک ترقیاتی کونسل یاضلع ترقیاتی کونسل ممبران یا پھر پنچائیت کے سربراہان اس بنیادی کام پر توجہ دیں تو یہاں کے نوجوانوں روزگار کے لئے بیرون ملک یابیرون ریاست دربدر نہیں ہونگے۔ سرکار کی جانب سے دئے جانے والے قرضہ جات سے کوئی ہوٹل کھولتا،کوئی گاڑیاں لیکر اپنی روزی روٹی کما لیتا، کوئی دست کاری یاکارپنٹری کو اپناہنر بنالیتا! لورن کے ہیڈ کواٹر کے سرپنچ کامران بشیر جن کی عمر 70سال اور پہلے محکمہ تعلیم میں بطور استاد خدمات انجام دینے کے بعد اب بحیثیت سرپنچ عوامی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کے مطابق ضلع پونچھ میں لورن بلاک پورا خوبصورت ہے۔ جس کے چاروں طرف سرسبز جنگلات ہیں۔ اگر محکمہ سیاحت کی جانب سے یہاں لورن میں ایک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ جہاں اکثر باہر سے آنے والے سیلانی لوگ آتے جاتے ٹھہرتے ہیں۔ لیکن یہ عمارت بلکل لورن ہیڈ کواٹر پر ہے۔ یہاں سیاحتی مقامات پر ابھی تک کوئی سیاحوں یا سیلانیوں کی خاطر بارش سے بچاو کے لئے کوئی ہٹ وغیرہ تعمیر نہیں کئے گئے ہیں۔چناراں بیلا سیٹھی، چکھڑی زیارت، چکی والا،سراں،سِب، ڈنہ، جہاں سال بھی کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلے جاتے ہیں۔بٹل کوٹ جہاں اگر چہ کچھ بندوبست ہے۔لیکن وہ بھی ناکافی ہے۔ بیلا بالا مولسر،بلخصوص نندی چھول آبشار، کے علاوہ متعدد مقامات پر ابھی تک کوئی ہٹ وغیرہ تعمیر نہیں ہیں۔ تنویر احمد تانترے جو کہ ایک سماجی نوجوان ہیں۔ 26سالہ اس نوجوان نے بتایاکہ نندی چھول ایک خوبصورت اور سیاحوں کے لئے دلکش جگہ ہے۔ لیکن اس کو ابھی تک سیاحت کے نقشہ پر نہ لاکر سخت ناانصافی کی ہے۔کیوں کہ یہاں نہ کوئی ہٹ وغیرہ تعمیر کیاگیاہے۔اورنہ راستے اور نہ ہی کوئی سہولیات میسر کی گئی ہے۔اگر چہ یہاں نندی چھول آبشار اپنی اب وتاب سے سیاحوں کی بڑی بے صبری سے انتظار کر رہاہے۔آبشار خوبصورت گھنے جنگلات ڈھوک کے خوبصورت قابل دید ڈھارے رنگ برنگے پھول اور جڑی بوٹیاں سرسبز میدان گنگناتے چشمے اڑتے پرندے خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔لیکن یہاں سر چھپانے کے لئے کوئی ہٹ نہیں۔کوئی سائیباں نہیں ہے۔جس کی وجہ سے جو کوئی ایک بار یہاں اتاہے۔وہ دوبارہ آنے کا زحمت نہیں کرتاہے۔اس لئے کہ بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے بچوں اور خواتین کو زبردست پریشان ہونا پڑتاہے۔ عرفان احمد جن کی عمر قریب 40سال ہے۔اس نے بات کرتے ہوے کہاکہ ہزار پریشانی کیوں نہ ہو ،جب ایک سیلانی یہاں ائیں باربار انے کی دل میں تمنا رہتی ہے۔ لیکن یہاں دیگر مسائیل تو درکنار دوسالوں سے یہاں سیلانی اس وجہ سے نہیں آتے کہ یہاں آنے سے اکیلے گھومنا پڑتاہے۔ کرونا وائرس یعنی کووڈ۔19کے ڈر سے کوئی ایک دوسرے کے قریب نہیں جاسکتا ہے۔ کسی کے ان ڈھوک کے مکانوں میں داخل نہیں ہوسکتاہے۔ اور اجنبی جان کر لوگ بھی اس قدر آہ بھگت نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کہ گزشتہ دو سالوں سے شعبہ سیاحت کو برباد کیاہے۔ لیکن اب جب کچھ اس وبا کے پھیلاو میں کمی آئی ہے۔ تو سیلانیوں کی آمد بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس علاقع کو سیاحت کے نقشہ پر لانے یا اس علاقع میں سیاحت کو فروغ دینے سے جہاں بے روزگار ختم ہوگی وہی ملک بھر کے سیاحوں کو سیروتفریح کے مواقع بھی نصیب ہونگے۔ ضلع ترقیاتی کونسل ممبر چوہدری ریاض ناز نے بتایاکہ لورن ایک بہت ہی خوبصورت مقام ہے۔ جن میں نندی چھول، ڈنہ،مہارکوٹ براچھڑ،سراں بٹل کوٹ میں بہت ہی خوبصورت مقام ہیں۔اس کے علاوہ متعدد ڈھوکیں بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہیں۔جس کے لئے پروجیکٹ انتظامیہ کو سونپ دیاگیاہے۔ امید کامل ہے کہ چیف ٹوریزم آفیسر تنویر احمد کی قیادت میں جلد سرکار سے منظوری کے بعد تمام پروجکیٹوں پر کام ہوگا۔اور سیاحوں کو ہر ممکن سہولیات میسر ہوگی۔ اس حوالے سے محکمہ سیاحت کے چیف ٹوریزم آفیسر تنویر احمد سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ مجھے ابھی ضلع پونچھ میں ابھی دو سال ہوے ہیں ان دو سالوں میں ضلع پونچھ کی منڈی اور سرنکوٹ تحصیلوں میں متعدد جگہوں پر کام ہوے ہیں۔ خاص کر کہ منڈی تحصیل میں محکمہ سیاحت کی جانب سے بہت سارے کام ہوے ہیں جن میں جبی طوطی کے لئے پروجیکٹ بنا کر بھیج دیا گیا ہے اور اراء ٹاپ پر دوئٹ ایک بڑا میدان تعمیر کیا گیا ہے اس کے علاوہ نیڑیاں نورپر کے علاوہ لورن نندی چھول کیلے بھی پروجیکٹ بنا کر بھیج دیے گئے ہیں جن پر جلد کام مکمل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ضلع پونچھ کے دیگر مقامات کی سیروتفریح کے لئے بھی اقدام اٹھائے جارہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دوسالوں میں منڈی تحصیل کے متعدد مقامات پر سیاحت کو فروغ ملاہے اور انتظامیہ اپنی لگاتار کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن گزشتہ ستر سالوں کا خلا پر کرنے کے لئے ایک چیف ٹوریزم آفیسر کی کوشش بہت ہے۔آخر اسقدر خوبصورت نظاروں کو آج تک کیوں نظر انداز کیا گیاہے؟ قدرتی حسن و جمال سے مالامال ان وادیوں کو کب سیلانیوں سیاحوں کی آمد کا مرکز بنایاجایگا؟ اب تک سیاحت کے شعبہ کے کروڑوں کے بجٹ میں لورن بلاک کے مذکورہ مقامات پر کتنا بجٹ صرف ہوا؟ اور کرونا وائرس کے اس سنگین دور میں یہ شعبہ کتنا متاثر ہواہوگا؟ یہ سوالات اپنی جگہ ،ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت تمام سیاسی سماجی اور سماج میں بااثر لوگ کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔اسی طرح انتظامیہ کے ساتھ مل کر آواز کو بلند کرتے ہوے اس علاقع کو سیاحت کے نقشہ پر لانے کی آنتھک کوشش کریں۔ جس سے یہاں روزگار کے مواقع نصیب ہونگے۔ نوجوانوں کو بیرون ریاست یا بیرون ملک دربدر ہونے سے چھٹکارہ نصیب ہوگا۔ مگر نہ جانے کب یہ سب کچھ ممکن ہو سکے گا؟یا پھر یہاں بے روزگاری اور قدرتی حسن و جمال پر ایسے ہی پردہ لگا رہے گا؟
(چرخہ فیچرس)