قطر کی ’سمارٹ پاور‘
چھوٹا سا خلیجی ملک ایک مضبوط عالمی ثالث کیسے بنا؟
دوحہ،ستمبر,کہیں ایسا تو نہیں کہ قطر کو یہ بات بہت پہلے سمجھ آ گئی تھی کہ اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ بات کرنا ڈھلتی عمر کے ضدی آمروں، شاہوں یا سیاستدانوں کی نسبت زیادہ آسان اور سود مند ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ قطر کی سفارتی اور سیاسی میدان میں ایک بہت بڑی فتح ہے۔ذرا اس 4471 مربع میل رقبے کے اس چھوٹے سے ملک، جس کے کل شہریوں کی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے، کی ’سفارتی‘ فتوحات پر ہی ایک نظر ڈالیں۔ فہرست تو کافی لمبی ہے لیکن یہاں چند ایک کا ذکر ضروری ہے:قطر نے سنہ 2008 میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا (یہ اور بات ہے کہ لڑائی اب تک ہو رہی ہے)، 2008 میں لبنان کے متحارب گروہوں کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کی جس کے بعد 2009 میں یونیٹی (اتحادی) حکومت قائم ہوئی، سنہ 2009 میں ہی سوڈان اور چاڈ کے درمیان باغیوں کے مسئلے پر مذاکرات میں حصہ لیا، جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان سرحد پر مسلح جھڑپوں کے بعد سنہ 2010 میں قطر نے ان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری جسے افریقی اتحاد نہ بھی بہت سراہا۔یہی نہیں بلکہ سنہ 2011 میں سوڈانی حکومت اور باغی گروہ لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان بھی دارفور معاہدہ کرایا جسے دوحا معاہدہ بھی کہا جاتا ہے اور سنہ 2012 میں حماس اور فتح گروہوں کے درمیان بھی صلح اور عبوری حکومت کے ڈھانچے پر معاہدہ کرانے میں قطر کا بہت ہاتھ تھا اور اس معاہدے پر دستخط بھی دوحا میں ہی ہوئے لیکن جس ثالثی کا آج کل سب سے زیادہ ذکر ہو رہا ہے اور جس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے وہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے انخلا کا معاہدہ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت امریکہ نے مقررہ تاریخ تک افغانستان سے نکلنا تھا۔ اگرچہ اس میں اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ امریکہ کے جانے کے بعد کابل پر کون حکومت کرے گا لیکن اس وقت کے افغان صدر اشرف غنی سے لے کر طالبان کے امیر ہبت اللہ اخوندزادہ تک سب کو پتہ تھا کہ کابل کا قرعہ کس کے نام نکلے گا۔ اگر کسی چیز کے متعلق کچھ شکوک و شبہات تھے تو وہ تھی اس عمل کی رفتار کہ یہ منتقلی کتنی تیزی سے ہو گی۔یوں تو امریکہ ویتنام سے بھی نکلا تھا لیکن افغانستان سے اس کے انخلا کے بعد شاید اس کی مستقبل میں جنگیں کرنے کی حمکتِ عملی مکمل طور پر ہی تبدیل ہو جائے۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سب میں امریکہ کی کچھ اپنی مرضی بھی شامل تھی اور اس میں اس کا ساتھ دینے والے دیگر ممالک کے ساتھ قطر بھی پیش پیش تھا۔ نہیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ جس جگہ ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہو اسی شہر میں طالبان کا سفید پرچم بھی ان کے دفتر پر لہرا رہا ہو، اور کسی کو کوئی مسئلہ بھی نہ ہو۔ (ویسے تھوڑا سا مسئلہ ضرور ہوا تھا اور طالبان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے دوحا کے دفتر میں جھنڈے کے ڈنڈے کو ذرا چھوٹا کر لیں کیونکہ لوگ اسے دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے۔)یہ کیسے ممکن ہوا؟ اور اس نے عالمی برادری کی نظر میں قطر کو کہاں لا کھڑا کیا، ذرا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید قندیل عباس کہتے ہیں کہ قطر کی سفارتکاری کو کامیابی کی کہانی کے طور پر لینا چاہیے اور دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کو اس سے سبق لینا چاہیے کہ اگر ایک چھوٹا سا ملک بھی چاہے تو وہ اپنی سالمیت کو بنیاد بنا کر ایک اہم بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی بن سکتا ہے۔’آپ دیکھیں کہ 1971 میں آزاد ہونے والا ایک چھوٹا سا ملک محض چند سالوں میں کیسے ایک امیر اور بااثر ملک بن گیا۔ اگرچہ اس کی اپنی قطری آبادی تقریباً تین لاکھ کے قریب ہے لیکن اس میں بہت بڑا ہاتھ وہاں کام کرنے والے تقریباً 27 لاکھ غیر ملکیوں کا بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی عرب ممالک ہیں ان میں اگر کسی نے اپنی دولت کا سب سے اچھا استعمال کیا ہے تو وہ قطر ہے۔‘قطر کے پاس سب سے بڑی دولت قدرتی گیس کی ہے اور اس کے پاس دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق قطر ان عرب ممالک میں شامل ہے جہاں انسانی ترقی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ڈاکٹر قندیل سمجھتے ہیں کہ قطر نے آزاد ہونے کے بعد یا یوں کہیے کہ قطر کے سابق خلیفہ حمد بن خلیفہ الثانی کے اپنے والد کا تختہ الٹ کر حکومت سنبھالنے کے بعد جو بھی سرمایہ کاری کی وہ سود مند ثابت ہوئی اور چاہے یہ سفارتی یا مالی سطح پر کی گئی ہو، دونوں میں اس کا فائدہ ہوا۔ڈاکٹر قندیل اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو انھوں نے یورپ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی، فٹبال کلبوں اور ہوٹلوں میں پیسہ لگایا اور اس کی بنیاد پر اپنا ایک سافٹ امیج بنایا اور برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات بنائے۔ ’آپ دیکھیے کہ العدید ایئربیس قطر نے امریکی اور برطانوی افواج کو دیا ہوا ہے۔ اس سے وہ پیسہ بھی کما رہے ہیں اور اس کو سیاسی اہمیت بھی ملی ہے۔‘موجودہ امیر تمیم بن حمد الثانی کے والد حمد بن خلیفہ الثانی 1995 سے 2013 تک امیر رہے۔ مبصرین کے مطابق ان کی ایک وڑن تھی کہ علاقے کے بڑے بڑے مضبوط ممالک کے درمیان وہ اپنے ملک کی ایسی بنیاد رکھیں کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی طور پر پہچانا جائے اور اس کی اپنی ایک الگ شناخت ہو۔ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ ’یوں تو اور بھی چیزیں ہیں لیکن بین الاقوامی طور پر اپنی پہچان بنانے کا اس کے پاس جو سب سے بہترین آلہ بنا وہ اس کا الجزیرہ نیٹ ورک تھا۔ الجزیرہ نے نہ صرف صحافت کا کلچر بدلا بلکہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کوئی نیٹ ورک نان سٹیٹ ایکٹرز کو سامنے لایا اور اس طرح وہ قطر کی ایک سافٹ پاور بن کر علاقائی اور بین الاقوامی طور پر ابھرا۔‘قائدِ اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر اس تبدیلی کا بہت زیادہ کریڈٹ مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی ’عرب سپرنگ‘ کو بھی دیتے ہیں جس نے مشرقِ وسطیٰ میں آزادی اور سوچ کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔’جب عرب سپرنگ آئی تو قطر کے پاس دو آپشن تھے یا تو وہ بادشاہوں اور آمروں کا ساتھ دے اور ان کے سائے میں خاموشی سے تنہا چلتا رہے یا پھر جو نان سٹیٹ ایکٹرز سامنے آ رہے تھے ان کے ساتھ چلے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قطر نے دوسرا آپشن چنا اور نان سٹیٹ ایکٹرز کا انتخاب کیا۔ وہ گروپس جو مختلف ممالک میں جمہوریت کے نام پر جدوجہد کر رہے تھے قطر نے ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔’اس نے اخوانِ مسلمون کی ہمیشہ حمایت کی، پھر حماس اور فلسطین کو سپورٹ کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ شام میں بھی اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر جب ترکی نے شمالی شام پر حملہ کیا تو قطر نے اس کی مکمل حمایت کی۔ یہ ساری چیزیں وہ تھیں جو اس وقت واشنگٹن اور مشرقِ وسطیٰ کے ’سٹیٹس کو‘ کے خلاف تھیں۔ قطر نے مخالف ہوا کے ساتھ چلنا شروع کیا اور اس طرح اس نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسے کسی سطح پر مختلف ریاستوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن عوامی طور پر اسے کافی پذیرائی ملی اور بین الاقوامی طور پر ایک الگ شناخت بھی۔‘سنہ 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے اس کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے اور اس پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے بہت قریب ہو رہا ہے اور الجزیرہ کے ذریعے خطے میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔ قطر ان تمام الزامات کو رد کرتا ہے۔ تاہم تعلقات منقطع کرنے والے مالک نے بعد میں دوبارہ تعلقات بحال تو کر لیے لیکن شاید ان میں سرد مہری ابھی تک ہے۔جواہر لعل یونیورسٹی کے سینٹر آف ویسٹ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا قطر کے عالمی افق پر ارتقا کو اس کی جغرافیائی اور قبائلی حیثیت سے بھی جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قطر کے عالمی منظرنامے پر آنے کا آغاز 1995 میں ہونے والے ایک خاندانی جھگڑے سے ہو گیا تھا جب شیخ تمیم کے والد حمد بن خلیفہ الثانی ایک انقلاب کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔’ایک بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد کا تختہ الٹ کر بادشاہت سنبھال لی تھی جو سعودی عرب کو پسند نہیں تھا کیونکہ نئے امیر ایران کے حامی تھے۔ دوسری بات کا تعلق تاریخ سے ہے۔ تاریخی طور پر پہلی سعودی ریاست جسے فرسٹ سٹیٹ کہتے ہیں اور دوسری ریاست یا سیکنڈ سٹیٹ کی نظر قطر پر تھی اور کئی سعودی قبائل جو کہ مشرقی سعودی عرب میں مقیم تھے ان کو وہاں بسنے کی اجازت 1995 سے پہلے پرانے شیخوں سے لینا پڑتی تھی۔ یہ ایک طرح سے قبائلی دشمنی ہے کیونکہ زیادہ تر ایک ہی الانازی قبیلے سے ہیں جو ریاض کے پاس تھا۔ بعد میں سب ادھر ادھر چلے گئے لیکن جڑیں ایک ہی ہیں۔ تو یہ ان دونوں چیزوں، ایران اور قبائلی مسائل، کو لے کر سعودی عرب اور قطر کے درمیان تصادم ہوتا رہا ہے اور 1995 کے بعد سعودی عرب نے دوسری ریاستوں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے ساتھ مل کر ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی، کیونکہ اس کی حمایت امریکہ نے نہیں کی تھی۔‘سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ قطر کا باقاعدہ رابطہ سعودی عرب کی انکھ میں ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے اور جب سعودی عرب نے اندرونی دباؤ کی وجہ سے امریکہ کو اپنے فوجی اڈے مزید نہ دینے کا فیصلہ کیا تو قطر نے اس موقع کو بھی اپنے لیے ایک موقع جانا اور امریکہ کو اپنا فوجی اڈہ دے دیا۔ اس سے پہلے دہران کے شیخ خالد بیس پر امریکی فوجی ہوا کرتے تھے۔پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ دوحا میں سینٹکوم یا سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر بننے سے خطے میں سب سے بڑے امریکی اڈے کا قیام ہوا جہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجی رہ رہے ہیں۔’اس کے بعد اسرائیل کے علاوہ خطے میں قطر امریکہ کا سب سے بڑا دوست بن گیا جس کا مقابلہ سعودی عرب، کویت، عمان، اور متحدہ عرب امارات نہیں کر سکتے تھے۔ حالانکہ امریکہ کو پتا تھا کہ الثانی خاندان کے ایران کے ساتھ تعلقات ہیں، لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ایران ایک شیعہ ملک ہے بلکہ اس لیے کہ اسے سعودی عرب سے خوف ہے۔‘پروفیسر پاشا کے مطابق اسی اعتماد کی وجہ سے قطر نے امریکہ کی حمایت سے مشرقِ وسطیٰ اور خطے کے کئی تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ جوزف نئی نے سنہ 2007 میں اپنی ایک تھیوری میں سافٹ پاور (وہ صلاحیت جس سے دوسروں کی ترجیحات کو بدلا جا سکے) اور ہارڈ پاور (وہ صلاحیت جس سے اپنے مقاصد زور اور طاقت سے حاصل کیے جائیں مطلب گاجر اور چھڑی کی پالیسی) کو ملا کر ایک سمارٹ پاور کا نظریہ پیش کیا تھا۔ سمارٹ پاور سافٹ اور ہارڈ پاور کو ملا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی صلاحیت کا نام ہے، یعنی دھکا بھی دو اور کھینچو بھی، طاقت کی ضرورت پر بھی انحصار کرو اور نئے اتحادوں اور اداروں پر بھی سرمایہ کاری کرو۔ڈاکٹر قندیل سمجھتے ہیں کہ اب شاید ہارڈ پاور کا زمانہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور سافٹ پاور کا دور ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ اب قطر بھی سمارٹ پاور پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب تمام عرب ممالک نے پرو ویسٹ یا پرو امریکن پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی تو اس وقت قطر نے آزاد اور غیر جانبدارانہ پالیسی اپنانے کو ترجیح دی، یعنی ایک طرف تو وہ اپنی آزادی کا اظہار کرے اور دوسری طرف اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے۔ اس کے مطابق اس کا بنیادی مقصد علاقائی امن اور سیاسی استحکام کی طرف جانا تھا۔’اب یہ چیزیں سٹیٹس کو کے خلاف جاتی تھیں اور یہی وجہ بنی کہ جب انھوں نے الجزیرہ کو استعمال کیا تو دو چیزیں سامنے آئیں۔ ایک تو یہ کہ قطر نے الجزیرہ نیٹ ورک کے ذریعے اور بروکنگ انسٹیٹیوشن اور کلنٹن فاؤنڈیشن کے اندر بہت زیادہ چندہ دے کر اپنی سافٹ ساکھ بنائی اور مغربی ممالک میں انھوں نے بہت زیادہ سرمایہ کاری بھی کی۔ جس کی وجہ سے علاقائی طاقتیں اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگیں۔ دوسری طرف ایران جیسی علاقائی پاور کی طرف سے یہ نظریہ بھی سامنے آیا کہ الجزیرہ نے جس طرح نان سٹیٹ ایکٹرز کو پروجیکشن دی ہے اور پہلی مرتبہ شدت پسندوں کو لوگو ں کی گردنیں کاٹتے ہوئے دکھایا ہے یہ بالکل وہی ہے جو مغرب ثابت کرنا چاہتا تھا کہ مسلمان یہ سب کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ کام خود کرنے کی بجائے بلکہ الجزیرہ کے ذریعے کروایا۔ ایران سمجھتا ہے کہ اسی نظریے کو سامنے رکھ کر مغرب نے گلوبل وار آن ٹیررازم ڈکلیئر کی تھی۔‘قطر کی سمارٹ پاور پالیسی کی ایک حالیہ مثال افغانستان ہے۔ یہ قطر کی ہی بہادرانہ اور انتھک ثالثی ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا اور اس کا نتیجہ طالبان کے کابل پر قبضے کی صورت میں سامنے آیا۔ امریکہ بھی صاف نکل گیا اور طالبان بھی آ گئے۔ڈاکٹر قندیل کے مطابق ’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قطر اپنے سائز اور وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسا کرنے سے بعض اوقات چھوٹی ریاستیں تباہ بھی ہو جاتی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بین الاقوامی انڈرسٹینڈنگ کے بغیر نہیں ہو سکتا اور جو گرین سگنل امریکہ کی طرف سے انھیں دیا گیا تھا اسی کی بنیاد پر انھوں نے القاعدہ کے اندر، داعش کے اندر، حماس، حزب اللہ اور اخوانِ مسلمون اور طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہیں، تاکہ بین الاقوامی طاقتوں اور ان نان سٹیٹ ایکٹرز کے درمیان میں کوئی کمیونیکیشن گیپ نہ رہے۔’قطر نے ایک پْل کا کردار ادا کیا ہے، یعنی ایک طرف بین الاقوامی طاقتیں اور دوسری طرف نان سٹیٹ ایکٹرز اور بیچ میں قطر۔ اب طالبان کے آنے کے بعد قطر ہی ایک رابطے کا ذریعہ بنا ہوا ہے، مطلب جو بھی طالبان سے بات کرنا چاہتا ہے قطر ہی اس کی بات کروا رہا ہے اور میرا خیال ہے کہ طالبان کے رویے میں تبدیلی میں بھی اس کا بہت کردار ہو گا، جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ انھوں نہ قطر میں بیٹھ کر پوری حکمتِ عملی ہی تبدیل کر دی اور اپنا ایک سافٹ امیج بنانے کی کوشش کی اور انھیں جو افغانستان میں کامیابی ملی وہ بھی انھی کی مرہونِ منت ہے۔سنہ 2011 میں سابق صدر اوباما نے فیصلہ کیا کہ اب افغانستان میں جنگ بند ہونی چاہیے اور فوجوں کو واپس بلا لینا چاہیے۔ قطر نے طالبان کو بلایا اور نہ صرف ان کی مہمان نوازی کی بلکہ ان کو ملک (افغانستان) سے باہر ان کا پہلا دفتر بھی دیا، جہاں سے وہ مزید بات چیت کر سکیں۔ اوباما کے بعد صدر ٹرمپ ائے اور ان کی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد کہا کہ امریکی افواج مئی 2021 میں افغانستان چھوڑ دیں گی۔ تیسرے امریکی صدر جو بائیڈن نے انخلا کی تاریخ کو 11 ستمبر تک بڑھانے کے متعلق سوچا لیکن طالبان بضد رہے اور 31 اگست تک آخری امریکی فوجی کو بھی افغانستان چھوڑنا پڑا۔یہ سب ایک تکون کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ، قطر اور طالبان ایک دوسرے کو استعمال کر کے اپنا اپنا فائدہ نکال رہے ہیں اور اس میں سب کا فائدہ بھی ہے۔پروفیسر اے کے پاشا بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ڈپلومیسی میں ٹریک ون اور ٹو بنیادی نظریات ہیں۔ ٹریک ون میں دونوں پارٹیاں آپس میں بیٹھ کر گفتگو کرتی ہیں جیسے بھٹو اور اندرا گاندھی نے شملہ معاہدہ کیا تھا۔ ٹریک ٹو میں کسی تیسرے ملک کی کسی تنظیم سے جو بڑا ملک یا کوئی پارٹی ہے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے ساتھ مکمل بریک ڈاؤن ہو جائے، اس لیے وہ مصر کو استعمال کرتا ہے، کبھی قطر کو استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح کئی ہاٹ سپاٹس میں امریکہ براہ راست مداخلت نہیں چاہتا اس لیے وہ قطر کو استعمال کرتا ہے، چاہے وہ سوڈان میں ہو لیبیا میں ہو صومالیہ میں ہو یا افغانستان میں۔’اسی طرح 2010 میں امریکہ کی اجازت سے ہی شیخ تمیم کے والد نے طالبان کے وفد کو خفیہ طریقے سے ملک میں آنے دیا اور کافی عالیشان مکانات اور سہولیات دیں۔ اس کے متعلق باقاعدہ طور پر 2013 میں پتہ چلا جب طالبان کے دفتر کو باقاعدہ طور پر وہاں کھولنے کی اجازت دی گئی۔ 2013 سے امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ بات چیت ہوتی رہی جو خلیل زادے کے پوزیشن میں آنے کے بعد سامنے آئی کہ قطر اس کا میزبان تھا جیسا کہ وہ خالد مشعال، چیچنیا اور اویغور رہنماؤں کی میزبانی کر رہا تھا۔ امریکہ میں اندرونی طور پر اتنی لابیئنگ اور دباؤ ہے کہ وہ کھل کر سب کے سامنے ان گروہوں سے بات نہیں کر سکتا لیکن ساتھ ساتھ وہ ’ونڈو آف اپورچونیٹی‘ یا موقع کے لیے ایک کھڑکی کھلی رکھنا چاہتا ہے اور وہ یہ قطر کے ذریعے کر رہا ہے۔‘کیا قطر کو جتنی امریکہ کی ضرورت ہے امریکہ کو بھی قطر کی اتنی ہی ضرورت ہے۔ پروفیسر پاشا اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قطر کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ’قطر جو بھی طالبان کے لیے کر رہا ہے وہ امریکہ کی مدد اور حمایت سے ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قطر کے پاس گیس کی وجہ سے کافی پیسہ ہے اور الثانی گروہ امریکہ کی اقتصادی اور سیاسی حمایت سے علاقائی سفارتکاری میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کیونکہ امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک نے افغانستان سے اپنے سفارتخانے ختم کر دیے اور وہ تقریباً سب ہی دوحا سے ہی آپریٹ کر رہے ہیں۔ اس لیے قطر کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور کابل میں قطر کے سفارتخانہ سے، جو ابھی تک کھلا ہوا ہے، بہت کچھ ہو رہا ہے۔‘اس کی ایک بہت بڑی مثال کابل سے پناہ گزینوں کے انخلا میں قطر کا کردار بھی ہے۔ کابل سے نکالے جانے والے تقریباً 40 فیصد افراد قطر کے ذریعے ہو کر گئے۔ بقول قطر افغانستان سے نکلنے والے تقریباً 43 ہزار افراد ان کے ملک سے ہو کر گئے ہیں۔ قطر ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو اس وقت اپنے پاس رکھے ہوئے بھی ہے، جن میں سے اکثر ان سہولیات میں بھی رہے ہیں جو سنہ 2022 میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک افغان صحافی احمد ولی سرحدی بھی ہیں جو ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جو اپنی جان بچا کر کابل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق زابل سے ہے اور وہ قندھار، ہلمند، اورزگان سے طلوع نیوز، اور دوسرے اداروں کے لیے فری لانس رپورٹنگ کرتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ جب طالبان نے ملک کے مختلف شہروں پر قبضہ کر لیا تو انھوں نے 13 اگست کو قندھار چھوڑ دیا تھا اور جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو وہ کابل میں ہی تھے۔’15 اگست کو میں نے کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) کو ای میل بھیجا اور انھیں اپنی حالت کے بارے میں بتایا۔ میں بہت مایوس تھا اور خوف بھی تھا کہ اب کیا ہو گا۔ مجھے سی پی جے نے ای میل بھیجا کہ میں 22 اگست کو پانچ بجے کابل کے سرینا ہوٹل پہنچ جاؤں، جہاں سے مجھے حامد کرزئی ایئرپورٹ لے جایا جائے گا۔ ہوٹل سے ایئرپورٹ لے جانے کام قطری کر رہے تھے۔ قطری وزارتِ خارجہ سے سی پی جے کا رابطہ تھا۔ ہوٹل کی لابی میں قطری افراد نے میرا نام لیا اور میری شناختی دستاویز اور پاسپورٹ وغیرہ چیک کیں۔ اس کے بعد وہ ہمیں چار بسوں میں ایئرپورٹ لے گئے۔’ہم دس بجے حامد کرزئی ایئرپورٹ میں داخل ہو چکے تھے۔ ہمارے آگے طالبان کی گاڑیاں ہماری حفاظت کے لیے تھیں اور قطری اہلکاروں کی پانچ کے قریب لینڈ کروزرز ہمارے ساتھ ساتھ تھیں۔ طالبان اور قطریوں کے بہت اچھے رابطے ہیں۔ وہ طالبان کی بات سنتے ہیں اور طالبان ان کی۔‘احمد کے منہ سے قطریوں کے لیے صرف دعائیں نکلتی ہیں کہ کس طرح مشکل حالات میں قطر نے جتنا زیادہ ممکن تھا افغان عوام کا ساتھ دیا۔’پہلے وہ ہمیں لے کر امریکی ایئر بیس پر آئے اور اس کے بعد اب 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے بنائے گئے بلیو سکائی ولاز میں لے آئے ہیں جہاں میں اس وقت رہ رہا ہوں۔’میں نے قطر جیسا ملک نہیں دیکھا۔ ہم یہاں پناہ گزین ہیں لیکن پھر بھی ہم سے ملنے قطر کی بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ آتے ہیں، بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور انھیں کھلونے اور کپڑے بھی دیتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں یہاں سب کچھ عجیب خواب کی طرح ہے۔ ’قطری یہاں آ کر ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر کچھ چاہیے ہو، کسی چیز کی کمی ہو تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں آئے ہوئے گیارہ دن ہو گئے ہیں لیکن انھوں نے ہمیں کچھ لینے نہیں دیا۔ سب کچھ خود ہی دے دیتے ہیں۔ یہاں ہم اپنے آپ کو اپنے گھر سے بہت زیادہ محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا برتاؤ ہمارے ساتھ ہمارے والدین جیسا ہے۔ میں یہ کبھی نہیں بھول سکتا۔‘احمد کہتے ہیں کہ انھیں نہیں پتہ کہ وہ کب تک یہاں رہیں گے لیکن انھیں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ ہماری اگلی منزل جرمنی یا میکسیکو ہو گی، جہاں ہمارے کاغذات بنیں گے اور اس کے بعد آخری منزل امریکہ۔ ’میں کیونکہ کے ریفیوجی پروگرام کے ساتھ ہوں اس لیے آخری ٹھکانہ امریکہ ہی ہے۔‘احمد اگر کسی قطری سرکاری افسر کا نام لیتے ہوئے نہیں تھکتے تو وہ قطر کی نائب وزیرِ خارجہ لولوۃ الخاطر ہیں۔ لیکن ایسا کرنے والے احمد اکیلے نہیں ہیں۔ میڈیا میں ہر طرف ان کا چرچہ ہے اور بقول احمد وہ ویسی ہی شفیق اور ملنسار ہیں جیسی وہ میڈیا میں نظر آتی ہیں۔لولؤ نے بہت مہارت سے کابل سے انخلا میں قطر کے کردار کی عالمی سٹیج پر نمائندگی کی ہے اور دیکھا جائے تو یہاں بھی ان کا کردار ’سمارٹ پاور‘ کا ہی ہے۔ لیکن وہ بار بار دہراتی ہیں کہ قطر یہ کام انسانی بنیادوں پر کر رہا ہے اور اس کے اپنے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں۔خبر وں کے مطابق انھوں نے کہا کہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ کوئی پی آر ہے کیونکہ تعلقاتِ عامہ کے اس سے کئی زیادہ آسان طریقے بھی موجود ہیں۔انھوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر قطر کی پناہ گزینوں اور افغان عوام کے لیے خدمات کی بہت سی پوسٹس لگائی ہیں۔ ایک پوسٹ میں وہ لکھتی ہیں کہ ’اپنا گھر چھوڑنا آسان نہیں ہے، کوئی بھی اپنی مرضی سے اپنا گھر نہیں چھوڑتا۔ ہم بہت شکر گزار ہیں کہ قسمت نے تھوڑی بہت مدد کرنے کے لیے ہمیں چنا ہے۔ ایک چیز جو مجھے اب اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے وہ یہ ہے کہ مجھے کسی چیز کے بارے میں شکایت نہیں کرنی چاہیے اور بس شکر گزار رہنا چاہیئے۔‘لولوۃ الخاطر یہ بھی سمجھتی ہیں کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہ کرے اور ان کی انسانی بنیادوں پر مدد کرتا رہے۔ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے وزارتِ خارجہ کے حکام کو افغان پناہ گزین بچوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتے ہوئے بھی دکھایا ہے۔ قطر کا یہی چہرہ ہے جو قطری حکام بغیر کوئی شور مچائے دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔ دوحا میں طالبان۔امریکہ مذاکرات کے دوران بھی قطر نے چپ چاپ صرف اپنے کام پر توجہ دی تھی۔اسی طرح ہی چپ چاپ محض چند دنوں میں قطر کی مدد سے کابل ایئرپورٹ بھی اس قابل ہو گیا کہ وہاں سے پروازیں اڑائی جا سکیں۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی سینیئر ڈائریکٹر دینا اسفندیاری نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ کوئی بھی کسی نہ کسی طرح کی قطریوں کی شمولیت کے بغیر افغانستان سے اہم انخلا کا عمل نہیں کر سکا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان اور طالبان قطر کے لیے ایک اہم فتح ہے، اس لیے نہیں کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ وہ طالبان کے ساتھ ثالثی کر سکتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ اس نے انھیں اس میں شامل مغربی ممالک کے لیے ایک سنجیدہ کھلاڑی بنا دیا ہے۔‘مبصرین بھی یہی کہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی طاقتیں کسی مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہیں وہ شروع سے ہی کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نیوٹرل رکھیں اور بہت سے معاملات میں کبھی کبھار ان سے اگر توازن خراب ہو بھی جاتا ہے تو وہ اگلی سٹیج پر اس توازن کو قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ڈاکٹر قندیل اس کی مثال کچھ اس طرح دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو ہی لے لیں۔ اس کے ایران کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں، ان کا آپس میں علاقائی جھگڑا بھی ہے۔ لیکن ایران افغانستان کے مسئلے میں ایک اہم کھلاڑی ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یو اے ای افغان مسئلے پر ثالثی کی کوشش کرتا تو ایران اس کے ساتھ کسی صورت بھی تعاون نہ کرتا اور نہ ہی یو اے ای ایران کے ساتھ۔ اسی طرح جتنے یو اے ای کے قریبی تعلقات انڈیا کے ساتھ ہیں پاکستان کی رائے عامہ میں اس کے متعلق ایک بڑی ریزرویشن پائی جاتی ہے۔ تو اس طرح شاید پاکستان سے بھی کوئی بہت زیادہ مثبت ردِ عمل نہ آتا۔’اسی طرح قطر کے تعلقات ترکی کے ساتھ بہت اچھے ہیں اور اگر پاکستان کے ساتھ اچھے نہیں تو بہت برے بھی نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کا ثالثی کا کردار صرف قطر کو ہی جچتا تھا اور انھوں نے ہی یہ کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طاقتوں نے بھی قطر کی مدد کی کہ وہ اپنا اس طرح کا کردار ادا کرے تاکہ ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں۔‘علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والے کئی لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ قطر عالمی سٹیج پر اپنے آپ کو ایک اچھا ثالث منوانا چاہتا ہے اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی طاقتوں اور طالبان نے بھی قطر کو اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے ایک ذریعہ بنایا ہے۔تاہم ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ طالبان کی اصل گیم تو پاکستان اور ایران نے کھیلی ہے۔’میں سمجھتا ہوں کہ بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کو جو افغانستان میں کنٹرول ملا ہے، اس میں پاکستان اور ایران نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ انھوں نے افغانستان کے جنگجو سرداروں پر اثرورسوخ استعمال کیا اور ان کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ بنائی کہ وہ اس کی مخالفت نہ کریں۔‘وہ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت بہت زیادہ کمزور تھی اور اس میں لیڈرشپ کی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ تو اس خلا کو پاکستان اور ایران نے پر کیا اور مستقبل میں بھی اصل گیم اسلام آباد اور تہران ہی پلے کریں گے۔’افغان معاشرے کو آپ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک پشتون اور دوسرا غیر پشتون۔ پشتون آبادی کی اکثریت پاکستان کے اثر میں ہے اور غیر پشتون جس میں ازبک تاجک، ہزارہ اور دیگر شامل ہیں ایران کے زیرِ اثر ہیں۔’میرا خیال ہے طالبان کے حوالے سے قطر صرف ایک ذریعے یا آلے کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔‘
قطر کی ’سمارٹ پاور‘: چھوٹا سا خلیجی ملک ایک مضبوط عالمی ثالث کیسے بنا؟
دوحہ،۹؍ستمبر(پی ایس آئی)کہیں ایسا تو نہیں کہ قطر کو یہ بات بہت پہلے سمجھ آ گئی تھی کہ اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ بات کرنا ڈھلتی عمر کے ضدی آمروں، شاہوں یا سیاستدانوں کی نسبت زیادہ آسان اور سود مند ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ قطر کی سفارتی اور سیاسی میدان میں ایک بہت بڑی فتح ہے۔ذرا اس 4471 مربع میل رقبے کے اس چھوٹے سے ملک، جس کے کل شہریوں کی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے، کی ’سفارتی‘ فتوحات پر ہی ایک نظر ڈالیں۔ فہرست تو کافی لمبی ہے لیکن یہاں چند ایک کا ذکر ضروری ہے:قطر نے سنہ 2008 میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا (یہ اور بات ہے کہ لڑائی اب تک ہو رہی ہے)، 2008 میں لبنان کے متحارب گروہوں کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کی جس کے بعد 2009 میں یونیٹی (اتحادی) حکومت قائم ہوئی، سنہ 2009 میں ہی سوڈان اور چاڈ کے درمیان باغیوں کے مسئلے پر مذاکرات میں حصہ لیا، جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان سرحد پر مسلح جھڑپوں کے بعد سنہ 2010 میں قطر نے ان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری جسے افریقی اتحاد نہ بھی بہت سراہا۔یہی نہیں بلکہ سنہ 2011 میں سوڈانی حکومت اور باغی گروہ لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان بھی دارفور معاہدہ کرایا جسے دوحا معاہدہ بھی کہا جاتا ہے اور سنہ 2012 میں حماس اور فتح گروہوں کے درمیان بھی صلح اور عبوری حکومت کے ڈھانچے پر معاہدہ کرانے میں قطر کا بہت ہاتھ تھا اور اس معاہدے پر دستخط بھی دوحا میں ہی ہوئے لیکن جس ثالثی کا آج کل سب سے زیادہ ذکر ہو رہا ہے اور جس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے وہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے انخلا کا معاہدہ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت امریکہ نے مقررہ تاریخ تک افغانستان سے نکلنا تھا۔ اگرچہ اس میں اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ امریکہ کے جانے کے بعد کابل پر کون حکومت کرے گا لیکن اس وقت کے افغان صدر اشرف غنی سے لے کر طالبان کے امیر ہبت اللہ اخوندزادہ تک سب کو پتہ تھا کہ کابل کا قرعہ کس کے نام نکلے گا۔ اگر کسی چیز کے متعلق کچھ شکوک و شبہات تھے تو وہ تھی اس عمل کی رفتار کہ یہ منتقلی کتنی تیزی سے ہو گی۔یوں تو امریکہ ویتنام سے بھی نکلا تھا لیکن افغانستان سے اس کے انخلا کے بعد شاید اس کی مستقبل میں جنگیں کرنے کی حمکتِ عملی مکمل طور پر ہی تبدیل ہو جائے۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سب میں امریکہ کی کچھ اپنی مرضی بھی شامل تھی اور اس میں اس کا ساتھ دینے والے دیگر ممالک کے ساتھ قطر بھی پیش پیش تھا۔ نہیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ جس جگہ ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہو اسی شہر میں طالبان کا سفید پرچم بھی ان کے دفتر پر لہرا رہا ہو، اور کسی کو کوئی مسئلہ بھی نہ ہو۔ (ویسے تھوڑا سا مسئلہ ضرور ہوا تھا اور طالبان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے دوحا کے دفتر میں جھنڈے کے ڈنڈے کو ذرا چھوٹا کر لیں کیونکہ لوگ اسے دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے۔)یہ کیسے ممکن ہوا؟ اور اس نے عالمی برادری کی نظر میں قطر کو کہاں لا کھڑا کیا، ذرا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید قندیل عباس کہتے ہیں کہ قطر کی سفارتکاری کو کامیابی کی کہانی کے طور پر لینا چاہیے اور دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کو اس سے سبق لینا چاہیے کہ اگر ایک چھوٹا سا ملک بھی چاہے تو وہ اپنی سالمیت کو بنیاد بنا کر ایک اہم بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی بن سکتا ہے۔’آپ دیکھیں کہ 1971 میں آزاد ہونے والا ایک چھوٹا سا ملک محض چند سالوں میں کیسے ایک امیر اور بااثر ملک بن گیا۔ اگرچہ اس کی اپنی قطری آبادی تقریباً تین لاکھ کے قریب ہے لیکن اس میں بہت بڑا ہاتھ وہاں کام کرنے والے تقریباً 27 لاکھ غیر ملکیوں کا بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی عرب ممالک ہیں ان میں اگر کسی نے اپنی دولت کا سب سے اچھا استعمال کیا ہے تو وہ قطر ہے۔‘قطر کے پاس سب سے بڑی دولت قدرتی گیس کی ہے اور اس کے پاس دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق قطر ان عرب ممالک میں شامل ہے جہاں انسانی ترقی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ڈاکٹر قندیل سمجھتے ہیں کہ قطر نے آزاد ہونے کے بعد یا یوں کہیے کہ قطر کے سابق خلیفہ حمد بن خلیفہ الثانی کے اپنے والد کا تختہ الٹ کر حکومت سنبھالنے کے بعد جو بھی سرمایہ کاری کی وہ سود مند ثابت ہوئی اور چاہے یہ سفارتی یا مالی سطح پر کی گئی ہو، دونوں میں اس کا فائدہ ہوا۔ڈاکٹر قندیل اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو انھوں نے یورپ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی، فٹبال کلبوں اور ہوٹلوں میں پیسہ لگایا اور اس کی بنیاد پر اپنا ایک سافٹ امیج بنایا اور برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات بنائے۔ ’آپ دیکھیے کہ العدید ایئربیس قطر نے امریکی اور برطانوی افواج کو دیا ہوا ہے۔ اس سے وہ پیسہ بھی کما رہے ہیں اور اس کو سیاسی اہمیت بھی ملی ہے۔‘موجودہ امیر تمیم بن حمد الثانی کے والد حمد بن خلیفہ الثانی 1995 سے 2013 تک امیر رہے۔ مبصرین کے مطابق ان کی ایک وڑن تھی کہ علاقے کے بڑے بڑے مضبوط ممالک کے درمیان وہ اپنے ملک کی ایسی بنیاد رکھیں کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی طور پر پہچانا جائے اور اس کی اپنی ایک الگ شناخت ہو۔ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ ’یوں تو اور بھی چیزیں ہیں لیکن بین الاقوامی طور پر اپنی پہچان بنانے کا اس کے پاس جو سب سے بہترین آلہ بنا وہ اس کا الجزیرہ نیٹ ورک تھا۔ الجزیرہ نے نہ صرف صحافت کا کلچر بدلا بلکہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کوئی نیٹ ورک نان سٹیٹ ایکٹرز کو سامنے لایا اور اس طرح وہ قطر کی ایک سافٹ پاور بن کر علاقائی اور بین الاقوامی طور پر ابھرا۔‘قائدِ اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر اس تبدیلی کا بہت زیادہ کریڈٹ مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی ’عرب سپرنگ‘ کو بھی دیتے ہیں جس نے مشرقِ وسطیٰ میں آزادی اور سوچ کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔’جب عرب سپرنگ آئی تو قطر کے پاس دو آپشن تھے یا تو وہ بادشاہوں اور آمروں کا ساتھ دے اور ان کے سائے میں خاموشی سے تنہا چلتا رہے یا پھر جو نان سٹیٹ ایکٹرز سامنے آ رہے تھے ان کے ساتھ چلے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قطر نے دوسرا آپشن چنا اور نان سٹیٹ ایکٹرز کا انتخاب کیا۔ وہ گروپس جو مختلف ممالک میں جمہوریت کے نام پر جدوجہد کر رہے تھے قطر نے ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔’اس نے اخوانِ مسلمون کی ہمیشہ حمایت کی، پھر حماس اور فلسطین کو سپورٹ کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ شام میں بھی اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر جب ترکی نے شمالی شام پر حملہ کیا تو قطر نے اس کی مکمل حمایت کی۔ یہ ساری چیزیں وہ تھیں جو اس وقت واشنگٹن اور مشرقِ وسطیٰ کے ’سٹیٹس کو‘ کے خلاف تھیں۔ قطر نے مخالف ہوا کے ساتھ چلنا شروع کیا اور اس طرح اس نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسے کسی سطح پر مختلف ریاستوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن عوامی طور پر اسے کافی پذیرائی ملی اور بین الاقوامی طور پر ایک الگ شناخت بھی۔‘سنہ 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے اس کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے اور اس پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے بہت قریب ہو رہا ہے اور الجزیرہ کے ذریعے خطے میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔ قطر ان تمام الزامات کو رد کرتا ہے۔ تاہم تعلقات منقطع کرنے والے مالک نے بعد میں دوبارہ تعلقات بحال تو کر لیے لیکن شاید ان میں سرد مہری ابھی تک ہے۔جواہر لعل یونیورسٹی کے سینٹر آف ویسٹ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا قطر کے عالمی افق پر ارتقا کو اس کی جغرافیائی اور قبائلی حیثیت سے بھی جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قطر کے عالمی منظرنامے پر آنے کا آغاز 1995 میں ہونے والے ایک خاندانی جھگڑے سے ہو گیا تھا جب شیخ تمیم کے والد حمد بن خلیفہ الثانی ایک انقلاب کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔’ایک بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد کا تختہ الٹ کر بادشاہت سنبھال لی تھی جو سعودی عرب کو پسند نہیں تھا کیونکہ نئے امیر ایران کے حامی تھے۔ دوسری بات کا تعلق تاریخ سے ہے۔ تاریخی طور پر پہلی سعودی ریاست جسے فرسٹ سٹیٹ کہتے ہیں اور دوسری ریاست یا سیکنڈ سٹیٹ کی نظر قطر پر تھی اور کئی سعودی قبائل جو کہ مشرقی سعودی عرب میں مقیم تھے ان کو وہاں بسنے کی اجازت 1995 سے پہلے پرانے شیخوں سے لینا پڑتی تھی۔ یہ ایک طرح سے قبائلی دشمنی ہے کیونکہ زیادہ تر ایک ہی الانازی قبیلے سے ہیں جو ریاض کے پاس تھا۔ بعد میں سب ادھر ادھر چلے گئے لیکن جڑیں ایک ہی ہیں۔ تو یہ ان دونوں چیزوں، ایران اور قبائلی مسائل، کو لے کر سعودی عرب اور قطر کے درمیان تصادم ہوتا رہا ہے اور 1995 کے بعد سعودی عرب نے دوسری ریاستوں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے ساتھ مل کر ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی، کیونکہ اس کی حمایت امریکہ نے نہیں کی تھی۔‘سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ قطر کا باقاعدہ رابطہ سعودی عرب کی انکھ میں ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے اور جب سعودی عرب نے اندرونی دباؤ کی وجہ سے امریکہ کو اپنے فوجی اڈے مزید نہ دینے کا فیصلہ کیا تو قطر نے اس موقع کو بھی اپنے لیے ایک موقع جانا اور امریکہ کو اپنا فوجی اڈہ دے دیا۔ اس سے پہلے دہران کے شیخ خالد بیس پر امریکی فوجی ہوا کرتے تھے۔پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ دوحا میں سینٹکوم یا سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر بننے سے خطے میں سب سے بڑے امریکی اڈے کا قیام ہوا جہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجی رہ رہے ہیں۔’اس کے بعد اسرائیل کے علاوہ خطے میں قطر امریکہ کا سب سے بڑا دوست بن گیا جس کا مقابلہ سعودی عرب، کویت، عمان، اور متحدہ عرب امارات نہیں کر سکتے تھے۔ حالانکہ امریکہ کو پتا تھا کہ الثانی خاندان کے ایران کے ساتھ تعلقات ہیں، لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ایران ایک شیعہ ملک ہے بلکہ اس لیے کہ اسے سعودی عرب سے خوف ہے۔‘پروفیسر پاشا کے مطابق اسی اعتماد کی وجہ سے قطر نے امریکہ کی حمایت سے مشرقِ وسطیٰ اور خطے کے کئی تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ جوزف نئی نے سنہ 2007 میں اپنی ایک تھیوری میں سافٹ پاور (وہ صلاحیت جس سے دوسروں کی ترجیحات کو بدلا جا سکے) اور ہارڈ پاور (وہ صلاحیت جس سے اپنے مقاصد زور اور طاقت سے حاصل کیے جائیں مطلب گاجر اور چھڑی کی پالیسی) کو ملا کر ایک سمارٹ پاور کا نظریہ پیش کیا تھا۔ سمارٹ پاور سافٹ اور ہارڈ پاور کو ملا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی صلاحیت کا نام ہے، یعنی دھکا بھی دو اور کھینچو بھی، طاقت کی ضرورت پر بھی انحصار کرو اور نئے اتحادوں اور اداروں پر بھی سرمایہ کاری کرو۔ڈاکٹر قندیل سمجھتے ہیں کہ اب شاید ہارڈ پاور کا زمانہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور سافٹ پاور کا دور ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ اب قطر بھی سمارٹ پاور پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب تمام عرب ممالک نے پرو ویسٹ یا پرو امریکن پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی تو اس وقت قطر نے آزاد اور غیر جانبدارانہ پالیسی اپنانے کو ترجیح دی، یعنی ایک طرف تو وہ اپنی آزادی کا اظہار کرے اور دوسری طرف اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے۔ اس کے مطابق اس کا بنیادی مقصد علاقائی امن اور سیاسی استحکام کی طرف جانا تھا۔’اب یہ چیزیں سٹیٹس کو کے خلاف جاتی تھیں اور یہی وجہ بنی کہ جب انھوں نے الجزیرہ کو استعمال کیا تو دو چیزیں سامنے آئیں۔ ایک تو یہ کہ قطر نے الجزیرہ نیٹ ورک کے ذریعے اور بروکنگ انسٹیٹیوشن اور کلنٹن فاؤنڈیشن کے اندر بہت زیادہ چندہ دے کر اپنی سافٹ ساکھ بنائی اور مغربی ممالک میں انھوں نے بہت زیادہ سرمایہ کاری بھی کی۔ جس کی وجہ سے علاقائی طاقتیں اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگیں۔ دوسری طرف ایران جیسی علاقائی پاور کی طرف سے یہ نظریہ بھی سامنے آیا کہ الجزیرہ نے جس طرح نان سٹیٹ ایکٹرز کو پروجیکشن دی ہے اور پہلی مرتبہ شدت پسندوں کو لوگو ں کی گردنیں کاٹتے ہوئے دکھایا ہے یہ بالکل وہی ہے جو مغرب ثابت کرنا چاہتا تھا کہ مسلمان یہ سب کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ کام خود کرنے کی بجائے بلکہ الجزیرہ کے ذریعے کروایا۔ ایران سمجھتا ہے کہ اسی نظریے کو سامنے رکھ کر مغرب نے گلوبل وار آن ٹیررازم ڈکلیئر کی تھی۔‘قطر کی سمارٹ پاور پالیسی کی ایک حالیہ مثال افغانستان ہے۔ یہ قطر کی ہی بہادرانہ اور انتھک ثالثی ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا اور اس کا نتیجہ طالبان کے کابل پر قبضے کی صورت میں سامنے آیا۔ امریکہ بھی صاف نکل گیا اور طالبان بھی آ گئے۔ڈاکٹر قندیل کے مطابق ’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قطر اپنے سائز اور وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسا کرنے سے بعض اوقات چھوٹی ریاستیں تباہ بھی ہو جاتی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بین الاقوامی انڈرسٹینڈنگ کے بغیر نہیں ہو سکتا اور جو گرین سگنل امریکہ کی طرف سے انھیں دیا گیا تھا اسی کی بنیاد پر انھوں نے القاعدہ کے اندر، داعش کے اندر، حماس، حزب اللہ اور اخوانِ مسلمون اور طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہیں، تاکہ بین الاقوامی طاقتوں اور ان نان سٹیٹ ایکٹرز کے درمیان میں کوئی کمیونیکیشن گیپ نہ رہے۔’قطر نے ایک پْل کا کردار ادا کیا ہے، یعنی ایک طرف بین الاقوامی طاقتیں اور دوسری طرف نان سٹیٹ ایکٹرز اور بیچ میں قطر۔ اب طالبان کے آنے کے بعد قطر ہی ایک رابطے کا ذریعہ بنا ہوا ہے، مطلب جو بھی طالبان سے بات کرنا چاہتا ہے قطر ہی اس کی بات کروا رہا ہے اور میرا خیال ہے کہ طالبان کے رویے میں تبدیلی میں بھی اس کا بہت کردار ہو گا، جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ انھوں نہ قطر میں بیٹھ کر پوری حکمتِ عملی ہی تبدیل کر دی اور اپنا ایک سافٹ امیج بنانے کی کوشش کی اور انھیں جو افغانستان میں کامیابی ملی وہ بھی انھی کی مرہونِ منت ہے۔سنہ 2011 میں سابق صدر اوباما نے فیصلہ کیا کہ اب افغانستان میں جنگ بند ہونی چاہیے اور فوجوں کو واپس بلا لینا چاہیے۔ قطر نے طالبان کو بلایا اور نہ صرف ان کی مہمان نوازی کی بلکہ ان کو ملک (افغانستان) سے باہر ان کا پہلا دفتر بھی دیا، جہاں سے وہ مزید بات چیت کر سکیں۔ اوباما کے بعد صدر ٹرمپ ائے اور ان کی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد کہا کہ امریکی افواج مئی 2021 میں افغانستان چھوڑ دیں گی۔ تیسرے امریکی صدر جو بائیڈن نے انخلا کی تاریخ کو 11 ستمبر تک بڑھانے کے متعلق سوچا لیکن طالبان بضد رہے اور 31 اگست تک آخری امریکی فوجی کو بھی افغانستان چھوڑنا پڑا۔یہ سب ایک تکون کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ، قطر اور طالبان ایک دوسرے کو استعمال کر کے اپنا اپنا فائدہ نکال رہے ہیں اور اس میں سب کا فائدہ بھی ہے۔پروفیسر اے کے پاشا بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ڈپلومیسی میں ٹریک ون اور ٹو بنیادی نظریات ہیں۔ ٹریک ون میں دونوں پارٹیاں آپس میں بیٹھ کر گفتگو کرتی ہیں جیسے بھٹو اور اندرا گاندھی نے شملہ معاہدہ کیا تھا۔ ٹریک ٹو میں کسی تیسرے ملک کی کسی تنظیم سے جو بڑا ملک یا کوئی پارٹی ہے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے ساتھ مکمل بریک ڈاؤن ہو جائے، اس لیے وہ مصر کو استعمال کرتا ہے، کبھی قطر کو استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح کئی ہاٹ سپاٹس میں امریکہ براہ راست مداخلت نہیں چاہتا اس لیے وہ قطر کو استعمال کرتا ہے، چاہے وہ سوڈان میں ہو لیبیا میں ہو صومالیہ میں ہو یا افغانستان میں۔’اسی طرح 2010 میں امریکہ کی اجازت سے ہی شیخ تمیم کے والد نے طالبان کے وفد کو خفیہ طریقے سے ملک میں آنے دیا اور کافی عالیشان مکانات اور سہولیات دیں۔ اس کے متعلق باقاعدہ طور پر 2013 میں پتہ چلا جب طالبان کے دفتر کو باقاعدہ طور پر وہاں کھولنے کی اجازت دی گئی۔ 2013 سے امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ بات چیت ہوتی رہی جو خلیل زادے کے پوزیشن میں آنے کے بعد سامنے آئی کہ قطر اس کا میزبان تھا جیسا کہ وہ خالد مشعال، چیچنیا اور اویغور رہنماؤں کی میزبانی کر رہا تھا۔ امریکہ میں اندرونی طور پر اتنی لابیئنگ اور دباؤ ہے کہ وہ کھل کر سب کے سامنے ان گروہوں سے بات نہیں کر سکتا لیکن ساتھ ساتھ وہ ’ونڈو آف اپورچونیٹی‘ یا موقع کے لیے ایک کھڑکی کھلی رکھنا چاہتا ہے اور وہ یہ قطر کے ذریعے کر رہا ہے۔‘کیا قطر کو جتنی امریکہ کی ضرورت ہے امریکہ کو بھی قطر کی اتنی ہی ضرورت ہے۔ پروفیسر پاشا اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قطر کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ’قطر جو بھی طالبان کے لیے کر رہا ہے وہ امریکہ کی مدد اور حمایت سے ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قطر کے پاس گیس کی وجہ سے کافی پیسہ ہے اور الثانی گروہ امریکہ کی اقتصادی اور سیاسی حمایت سے علاقائی سفارتکاری میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کیونکہ امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک نے افغانستان سے اپنے سفارتخانے ختم کر دیے اور وہ تقریباً سب ہی دوحا سے ہی آپریٹ کر رہے ہیں۔ اس لیے قطر کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور کابل میں قطر کے سفارتخانہ سے، جو ابھی تک کھلا ہوا ہے، بہت کچھ ہو رہا ہے۔‘اس کی ایک بہت بڑی مثال کابل سے پناہ گزینوں کے انخلا میں قطر کا کردار بھی ہے۔ کابل سے نکالے جانے والے تقریباً 40 فیصد افراد قطر کے ذریعے ہو کر گئے۔ بقول قطر افغانستان سے نکلنے والے تقریباً 43 ہزار افراد ان کے ملک سے ہو کر گئے ہیں۔ قطر ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو اس وقت اپنے پاس رکھے ہوئے بھی ہے، جن میں سے اکثر ان سہولیات میں بھی رہے ہیں جو سنہ 2022 میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک افغان صحافی احمد ولی سرحدی بھی ہیں جو ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جو اپنی جان بچا کر کابل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق زابل سے ہے اور وہ قندھار، ہلمند، اورزگان سے طلوع نیوز، اور دوسرے اداروں کے لیے فری لانس رپورٹنگ کرتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ جب طالبان نے ملک کے مختلف شہروں پر قبضہ کر لیا تو انھوں نے 13 اگست کو قندھار چھوڑ دیا تھا اور جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو وہ کابل میں ہی تھے۔’15 اگست کو میں نے کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) کو ای میل بھیجا اور انھیں اپنی حالت کے بارے میں بتایا۔ میں بہت مایوس تھا اور خوف بھی تھا کہ اب کیا ہو گا۔ مجھے سی پی جے نے ای میل بھیجا کہ میں 22 اگست کو پانچ بجے کابل کے سرینا ہوٹل پہنچ جاؤں، جہاں سے مجھے حامد کرزئی ایئرپورٹ لے جایا جائے گا۔ ہوٹل سے ایئرپورٹ لے جانے کام قطری کر رہے تھے۔ قطری وزارتِ خارجہ سے سی پی جے کا رابطہ تھا۔ ہوٹل کی لابی میں قطری افراد نے میرا نام لیا اور میری شناختی دستاویز اور پاسپورٹ وغیرہ چیک کیں۔ اس کے بعد وہ ہمیں چار بسوں میں ایئرپورٹ لے گئے۔’ہم دس بجے حامد کرزئی ایئرپورٹ میں داخل ہو چکے تھے۔ ہمارے آگے طالبان کی گاڑیاں ہماری حفاظت کے لیے تھیں اور قطری اہلکاروں کی پانچ کے قریب لینڈ کروزرز ہمارے ساتھ ساتھ تھیں۔ طالبان اور قطریوں کے بہت اچھے رابطے ہیں۔ وہ طالبان کی بات سنتے ہیں اور طالبان ان کی۔‘احمد کے منہ سے قطریوں کے لیے صرف دعائیں نکلتی ہیں کہ کس طرح مشکل حالات میں قطر نے جتنا زیادہ ممکن تھا افغان عوام کا ساتھ دیا۔’پہلے وہ ہمیں لے کر امریکی ایئر بیس پر آئے اور اس کے بعد اب 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے بنائے گئے بلیو سکائی ولاز میں لے آئے ہیں جہاں میں اس وقت رہ رہا ہوں۔’میں نے قطر جیسا ملک نہیں دیکھا۔ ہم یہاں پناہ گزین ہیں لیکن پھر بھی ہم سے ملنے قطر کی بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ آتے ہیں، بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور انھیں کھلونے اور کپڑے بھی دیتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں یہاں سب کچھ عجیب خواب کی طرح ہے۔ ’قطری یہاں آ کر ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر کچھ چاہیے ہو، کسی چیز کی کمی ہو تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں آئے ہوئے گیارہ دن ہو گئے ہیں لیکن انھوں نے ہمیں کچھ لینے نہیں دیا۔ سب کچھ خود ہی دے دیتے ہیں۔ یہاں ہم اپنے آپ کو اپنے گھر سے بہت زیادہ محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا برتاؤ ہمارے ساتھ ہمارے والدین جیسا ہے۔ میں یہ کبھی نہیں بھول سکتا۔‘احمد کہتے ہیں کہ انھیں نہیں پتہ کہ وہ کب تک یہاں رہیں گے لیکن انھیں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ ہماری اگلی منزل جرمنی یا میکسیکو ہو گی، جہاں ہمارے کاغذات بنیں گے اور اس کے بعد آخری منزل امریکہ۔ ’میں کیونکہ کے ریفیوجی پروگرام کے ساتھ ہوں اس لیے آخری ٹھکانہ امریکہ ہی ہے۔‘احمد اگر کسی قطری سرکاری افسر کا نام لیتے ہوئے نہیں تھکتے تو وہ قطر کی نائب وزیرِ خارجہ لولوۃ الخاطر ہیں۔ لیکن ایسا کرنے والے احمد اکیلے نہیں ہیں۔ میڈیا میں ہر طرف ان کا چرچہ ہے اور بقول احمد وہ ویسی ہی شفیق اور ملنسار ہیں جیسی وہ میڈیا میں نظر آتی ہیں۔لولؤ نے بہت مہارت سے کابل سے انخلا میں قطر کے کردار کی عالمی سٹیج پر نمائندگی کی ہے اور دیکھا جائے تو یہاں بھی ان کا کردار ’سمارٹ پاور‘ کا ہی ہے۔ لیکن وہ بار بار دہراتی ہیں کہ قطر یہ کام انسانی بنیادوں پر کر رہا ہے اور اس کے اپنے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں۔خبر وں کے مطابق انھوں نے کہا کہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ کوئی پی آر ہے کیونکہ تعلقاتِ عامہ کے اس سے کئی زیادہ آسان طریقے بھی موجود ہیں۔انھوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر قطر کی پناہ گزینوں اور افغان عوام کے لیے خدمات کی بہت سی پوسٹس لگائی ہیں۔ ایک پوسٹ میں وہ لکھتی ہیں کہ ’اپنا گھر چھوڑنا آسان نہیں ہے، کوئی بھی اپنی مرضی سے اپنا گھر نہیں چھوڑتا۔ ہم بہت شکر گزار ہیں کہ قسمت نے تھوڑی بہت مدد کرنے کے لیے ہمیں چنا ہے۔ ایک چیز جو مجھے اب اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے وہ یہ ہے کہ مجھے کسی چیز کے بارے میں شکایت نہیں کرنی چاہیے اور بس شکر گزار رہنا چاہیئے۔‘لولوۃ الخاطر یہ بھی سمجھتی ہیں کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہ کرے اور ان کی انسانی بنیادوں پر مدد کرتا رہے۔ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے وزارتِ خارجہ کے حکام کو افغان پناہ گزین بچوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتے ہوئے بھی دکھایا ہے۔ قطر کا یہی چہرہ ہے جو قطری حکام بغیر کوئی شور مچائے دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔ دوحا میں طالبان۔امریکہ مذاکرات کے دوران بھی قطر نے چپ چاپ صرف اپنے کام پر توجہ دی تھی۔اسی طرح ہی چپ چاپ محض چند دنوں میں قطر کی مدد سے کابل ایئرپورٹ بھی اس قابل ہو گیا کہ وہاں سے پروازیں اڑائی جا سکیں۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی سینیئر ڈائریکٹر دینا اسفندیاری نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ کوئی بھی کسی نہ کسی طرح کی قطریوں کی شمولیت کے بغیر افغانستان سے اہم انخلا کا عمل نہیں کر سکا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان اور طالبان قطر کے لیے ایک اہم فتح ہے، اس لیے نہیں کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ وہ طالبان کے ساتھ ثالثی کر سکتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ اس نے انھیں اس میں شامل مغربی ممالک کے لیے ایک سنجیدہ کھلاڑی بنا دیا ہے۔‘مبصرین بھی یہی کہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی طاقتیں کسی مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہیں وہ شروع سے ہی کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نیوٹرل رکھیں اور بہت سے معاملات میں کبھی کبھار ان سے اگر توازن خراب ہو بھی جاتا ہے تو وہ اگلی سٹیج پر اس توازن کو قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ڈاکٹر قندیل اس کی مثال کچھ اس طرح دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو ہی لے لیں۔ اس کے ایران کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں، ان کا آپس میں علاقائی جھگڑا بھی ہے۔ لیکن ایران افغانستان کے مسئلے میں ایک اہم کھلاڑی ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یو اے ای افغان مسئلے پر ثالثی کی کوشش کرتا تو ایران اس کے ساتھ کسی صورت بھی تعاون نہ کرتا اور نہ ہی یو اے ای ایران کے ساتھ۔ اسی طرح جتنے یو اے ای کے قریبی تعلقات انڈیا کے ساتھ ہیں پاکستان کی رائے عامہ میں اس کے متعلق ایک بڑی ریزرویشن پائی جاتی ہے۔ تو اس طرح شاید پاکستان سے بھی کوئی بہت زیادہ مثبت ردِ عمل نہ آتا۔’اسی طرح قطر کے تعلقات ترکی کے ساتھ بہت اچھے ہیں اور اگر پاکستان کے ساتھ اچھے نہیں تو بہت برے بھی نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کا ثالثی کا کردار صرف قطر کو ہی جچتا تھا اور انھوں نے ہی یہ کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طاقتوں نے بھی قطر کی مدد کی کہ وہ اپنا اس طرح کا کردار ادا کرے تاکہ ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں۔‘علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والے کئی لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ قطر عالمی سٹیج پر اپنے آپ کو ایک اچھا ثالث منوانا چاہتا ہے اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی طاقتوں اور طالبان نے بھی قطر کو اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے ایک ذریعہ بنایا ہے۔تاہم ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ طالبان کی اصل گیم تو پاکستان اور ایران نے کھیلی ہے۔’میں سمجھتا ہوں کہ بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کو جو افغانستان میں کنٹرول ملا ہے، اس میں پاکستان اور ایران نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ انھوں نے افغانستان کے جنگجو سرداروں پر اثرورسوخ استعمال کیا اور ان کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ بنائی کہ وہ اس کی مخالفت نہ کریں۔‘وہ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت بہت زیادہ کمزور تھی اور اس میں لیڈرشپ کی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ تو اس خلا کو پاکستان اور ایران نے پر کیا اور مستقبل میں بھی اصل گیم اسلام آباد اور تہران ہی پلے کریں گے۔’افغان معاشرے کو آپ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک پشتون اور دوسرا غیر پشتون۔ پشتون آبادی کی اکثریت پاکستان کے اثر میں ہے اور غیر پشتون جس میں ازبک تاجک، ہزارہ اور دیگر شامل ہیں ایران کے زیرِ اثر ہیں۔’میرا خیال ہے طالبان کے حوالے سے قطر صرف ایک ذریعے یا آلے کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔‘