صومالیہ میں خواتین کے حقوق کی کارکن حنا ابوبکر
میری آواز دبانے کے لیے فیس بک کا استعمال کیا جا رہا ہے
موغہ دیشو/لندن،ستمبر۔’ہم نے تمھیں صومالیہ میں نہیں مارا اور اب تم برطانیہ میں آزاد ہو۔ لیکن اب ہم تمھیں فیس بک پر خاموش کردیں گے۔‘ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ وراننگ صومالی نڑاد برطانوی حنا ابوبکر کو دی گئی جو حقوق نسواں کی کارکن ہیں۔حنا پرانتا (جو آن لائن حنا ابوبکر کے نام سے مشہور ہیں) اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے ریپ اور گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ حنا کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف مہم چلانے والے ایک شخص نے انھیں گذشتہ برس فون کیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ فیس بک کا مقصد ایک ایسا آن لائن پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جہاں بدسلوکی کی کوئی گنجائش نہ ہو لیکن اس کے ضوابط کے برعکس اب اس کا استمعال دھمکیوں اور ہراسانی کے لیے کیا جا رہا ہے۔حنا کے فیس بک اکاؤنٹ پر 130000 فالوورز ہیں لیکن انھیں یقین ہے کہ صومالیہ میں بعض لوگ خواتین کی برابری کے خلاف ہیں۔ ان لوگوں نے فیس بک سے رجوع کیا ہے کہ حنا کا اکاؤنٹ بند کر دیا جائے۔فیس بک کا کہنا ہے وہ اس نوعیت کی ہر شکایت اور رپورٹ کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس کی تفتیش کی جاتی ہے۔برطانیہ میں مقیم حنا کی عمر 44 سال ہے اور وہ قریب سات برس کی تھیں جب صومالیہ سے سویڈن چلی گئیں۔ سویڈن میں وہ سماجی کارکن بن گئی تھیں اور گذشتہ ایک دہائی سے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔ وہ متاثرہ خواتین کی مدد بھی کر رہی ہیں۔انھوں نے سویڈن میں مقیم صومالی خواتین کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ہے جن میں وہ ریپ اور گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ وہ اپنے کام کے لیے صومالیہ میں بھی مشہور ہیں جہاں وہ متعدد خیراتی اداروں سے منسلک ہیں۔ ان کے بارے میں یہ حقیقت صومالیہ میں بعض قدامت پسند افراد کو ناگوار گزرتی ہے۔حنا جب بھی صومالیہ جاتی ہیں وہ ہمیشہ اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ سفر کرتی ہیں تاکہ وہ ان کا تحفظ کرسکیں۔ ستمبر 2020 میں جب وہ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کے ایک ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں تو کسی نے ان کے کھانے میں ’زہر ملا دیا تھا۔‘مگر کسی نے انھیں متنبہ کردیا تھا اور انھوں نے وہ کھانا نہیں کھایا۔ لیکن اس کے بعد ایک مسلح گینگ نے ان کے اغوا کی کوشش کی۔ ان کے باڈی گارڈ نے انھیں بچایا اور مسلح گینگ فرار ہوگیا۔وہاں سے واپس آنے کے بعد انھیں ایک شخص کا فون آیا اور تب سے ہی ان کا فیس بک اکاؤنٹ کمپنی کی جانب سے کئی بار یا تو معطل کردیا جاتا یا اس تک رسائی محدود کردی جاتی۔حنا کا خیال ہے کہ ان کے اکاؤنٹ کے بارے میں شکایات کرنے والے لوگ ان کو خاموش کرنا چاہتے ہیں۔حنا کا اکاؤنٹ کئی بار بلاک کیا گیا ہے۔حنا کا کہنا ہے کہ فیس بک سے کئی بار شکایت کرنے کے باوجود کمپنی ان ’جھوٹی شکایت‘ کرنے والوں کی شناخت کرنے یا انھیں ایسا کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔ان کے مطابق وہ بڑے پیمانے پر منظم آن لائن حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔حنا کا کہنا ہے کہ انھوں نے دسمبر میں فیس بک سے رابطہ کرنا شروع کیا تھا۔ ’میں نے انھیں سب کچھ بتایا۔ یہی کہ یہ گروپ میرا اکاؤنٹ بند کروانا چاہتا ہے اور وہ مجھے دھمکیاں بھیجتے ہیں۔ لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی۔‘ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ شکایت کرتے ہیں انھوں نے فیس بک میسنجر پر 300 سے زیادہ لوگوں کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے جہاں وہ لوگوں کو اپنا ہدف بناتے ہیں اور ان کے بارے میں شکایات درج کراتے ہیں۔حنا کے ایک حامی نے اس گروپ کو جوائن کیا اور ان کو وہاں ہونے والی بات چیت کے سکرین شاٹ بھیجے۔ حنا نے یہ ثبوت اور برطانوی پولیس میں درج کی جانے والی شکایت کی تفصیلات فیس بک کو بھیجی ہیں۔بعض سکرین شاٹس میں پڑھا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ آپس میں باتیں کررہے ہیں کہ وہ کیسے حنا کے فیس بک اکاؤنٹ تک رسائی محدود کروانے میں کامیاب ہوئے اور اب وہ ان کا یوٹیوب چینل بھی بند کروائیں گے۔حنا کو افسوس ہے کہ فیس بک نے ان شکایات کی گہرائی سے تفتیش کیے بغیر ان کا اکاؤنٹ غیر فعال بنا دیا ہے۔ان کے لیے فیس بک سے اس بارے میں رجوع کرنا ایک پریشان کن تجربہ رہا ہے۔ جب بھی وہ فیس بک سے رجوع کرتی ہیں تو یا تو ان کو مختلف شعبوں سے بات کرنے کے لیے کہا جاتا ہے یا وہ روبوٹ سے بات کررہی ہوتی ہیں۔جب بی بی سی نے ان الزامات کے بارے میں فیس بک سے رجوع کیا تو حنا نے بتایا کہ چند ماہ قبل ان کے اکاؤنٹ سے بعض پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں جن میں لائیو سٹریمنگ کی سہولت شامل ہے۔فیس بک کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کے پلیٹ فارم پر اہم مبحاثوں کی اجازت ہے لیکن کمپنی کی پالیسی ہے کہ وہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اس پلیٹ فارم کا استعمال ہراسانی یا بدسلوکی کے لیے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ’جس متنازع مواد کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا اس کو ہم نے ہٹا دیا ہے۔ لیکن ہماری تفتیش سے یہ معلوم ہوا کہ حنا کے اکاؤنٹ پر اب کوئی پابندیاں نہیں۔‘لیکن حنا کا کہنا ہے کہ ان پر ’شیڈو بین‘ ہے یعنی ایسی پابندی جس کے تحت ان کے فالوورز کی نیوز فیڈ پر ان کی پوسٹ بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ان کے مطابق انھیں اب نئے فالوورز نہیں مل رہے ہیں اور ابھی تک ان کی بلو ٹک یعنی تصدیق شدہ اکاؤنٹ کی درخواست قبول نہیں ہوئی ہے۔تو سوال یہ ہے کہ حنا کے فیس بک کے بارے میں شکایت کون درج کرا رہا ہے؟ شاید سن کر تعجب ہو لیکن ان میں بیشتر تعداد خواتین کی ہے۔آمنہ موسے وہیلی ایک صحافی ہیں اور ذہنی صحت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پھیلانے کا کام کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنی تفتیش میں پایا کہ صومالیہ سے تعلق رکھنے والا ایک بااثر شخص ان گروہوں کی قیادت کر رہا ہے جو فیس بک پر حنا جیسے لوگوں کے اکاؤنٹس کے بارے میں شکایات درج کراتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر مرد بیرونی ممالک میں رہائش پذیر صومالی خواتین کو حنا جیسی خواتین کارکنان کے خلاف اپنی جنگ میں حصہ لینے کے لیے تیار کررہے ہیں۔آمنہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسی خواتین سے رابطہ کرتے ہیں جو ’یا تو بے روزگار ہیں یا بغیر شوہر کے اپنے بچوں کو پال رہی ہیں اور ان کے پاس ان کے خاندان والے نہیں ہیں۔ وہ خواتین جو تنہا ہیں اور جو اپنے ملک صومالیہ سے بہت دور ہیں۔‘وہ ان سے بات اس طرح شروع کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں اور وہ بہت خاص ہیں۔ اس کے بعد وہ انھیں اپنے لیے کام کرنے پر راضی کرتے ہیں اور بدلے میں ان کو پیسوں کی پیش کش کرتے ہیں۔ان کی اس مہم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ صومالیہ سے تعلق رکھنے والی کارکنان کے بارے میں سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلاتے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران حنا کے خلاف اس مہم نے کافی جارحانہ رویہ اختیار کرلیا ہے۔حنا نے بتایا کہ ’گینک کے سربراہ نے پہلے مجھ سے کہا کہ میں اعضا کی سمگلنگ کر رہی تھی۔ اس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ صومالی خواتین کو سیکس ورکرز کے طور پر فروخت کر رہی ہوں۔ اور اب وہ شخص کہہ رہا ہے کہ میں صومالی خواتین کو مسیحی بنا رہی ہوں۔‘اس طرح کے پروپیگنڈا کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اب حنا کے بارے میں شکایت درج کرا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ ایک مجرم ہیں۔ ان حالات میں حنا کے لیے اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔حنا اور آمنہ کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے میں زبان ایک اہم وجہ ہے کہ فیس بک جعلی رپورٹس کی صحیح سے تفتیش نہیں کررہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیس بک اس لیے ان کی شکایت پر سنجیدگی سے کارروائی نہیں کررہا کیونکہ ان کا تعلق صومالیہ سے ہے۔آمنہ کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ لوگ جب اپنی زبان میں کچھ لکھتے ہیں تو فیس بک کو یہ سمچھ ہی نہیں آتا ہے۔ ان کا مطلب ہے کہ فیس بک کا صومالی زبان میں ترجمہ کرنے والا ٹول صحیح سے کام نہیں کرتا یا وہ بہت اچھا ترجمہ نہیں کرتا۔ان کے مطابق اس مسئلے سے نمٹنے کا ایک بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ترجمہ کرنے کے لیے فیس بک صومالی افراد کی خدمات لے۔حنا کو خدشہ ہے کہ ان کے ’فیس بک اکاؤنٹ کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا اور اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے وہ جن خواتین کی مدد کرتی ہیں وہ بے یار و مددگار ہو جائیں گی۔