شین: نوجوانوں کو ’جنون کی حد تک پسند‘ کپڑوں کا فاسٹ فیشن چینی برانڈ جس نے دنیا کی مقبول کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا
لندن،نومبر۔یوٹیوب، انسٹاگرام یا ٹک ٹاک پر یہ مناظر بہت عام سے ہیں، ایک نوجوان لڑکی اپنے بستر پر شین نامی کمپنی کے کپڑوں کا ڈھیر پھینکتی ہے اور کپڑے بدل بدل کر سامنے آتی ہے تا کہ اس کو لائیکس اور فالوئرز ملیں۔کورونا وائرس کی وبا کے دوران کپڑوں کی اس چینی کمپنی کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی ہے مگر کیا آپ کی عمر 30 سال سے زیادہ ہے؟ پھر امکان یہ ہے کہ آپ نے اس کا نام بھی نہیں سنا ہو گا۔اس کمپنی نے ایسے صارفین کو اپنی جانب راغب کیا جنھیں تازہ ترین رجحان کی بھی فکر ہوتی ہے اور قیمت کی بھی۔ یہ کمپنی اب ایک آن لائن جائنٹ بن گئی ہے اور اس پر چھ ہزار کے قریب مختلف چیزیں موجود ہیں۔مگر اس کمپنی کو اس کے ماحولیاتی نقصانات اور شفافیت کی کمی کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا ہے۔اس کے علاوہ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے ڈزائنرز کا کام کاپی کرتا ہے جس کی شین تردید کرتی ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔تو اس کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے جس نے ’اسوس‘ اور ’بوہو‘ جیسی اپنے مقابلے کی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے؟
1۔ چیزیں سستی ہیں، اوسطً چیز کی قیمت 7.90 پاؤنڈ ہے:شین سائڈ کے قدرے غیر معروف بانی 2008 میں اکھٹے ہوئے اور ان کی قیادت انٹریپرینیئر کرس شو کر رہے تھے جن کا ابتدائی کیریئر ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور شادی کے ملبوسات آن لائن بیچنے میں گزرا تھا۔اپنی موجود حالت میں شین کمپنی نام چھوٹا کر کے پانچ سال پہلے شروع کی گئی تھی۔ کمپنی کے نام کا تلفظ ‘شی اِن‘ ہے۔اگرچہ کمپنی چین میں ہے مگر یہ بنیادی طور پر امریکہ، یورپ، اور آسٹریلیا میں موجود صارفین کی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے کراپ ٹاپس، بیکینیز، اور ڈریش اوسطً 7.90 پاؤنڈ کے ہوتے ہیں۔آج یہ کمپنی دنیا کے فاسٹ فیشن میں ایک اہم کھلاڑی ہے اور 220 ممالک میں اپنی مصنوعات بھیجتی ہے۔ریٹیل اکونامکس نامی آزادانہ کنسلٹنسی کے رچرڈ لم کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے کمپنی کی سیلز میں اضافہ ہوا۔‘لاک ڈاؤنز کا مطلب تھا کہ بہت سے صارفین نے آن لائن زیادہ وقت گزارا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر برانڈز کے بارہے میں آگاہی کے حوالے سے ایک جنگ جاری تھی۔‘یہی وجہ ہے کہ یہ آن لائن ریٹیلر وسیع تر صارفین تک زیادہ تیزی سے پہنچ سکی۔‘‘اگرچہ نجی کمپنی ہونے کی وجہ سے کمپنی اپنے مالیاتی اعداد و شمار شائع نہیں کرتی، سی بی انسائٹس کی جانب سے فراہم کردہ اندازوں کے مطابق 2020 میں اس نے 63.5 ارب یوآن (یعنی تقریباً 7.4 ارب پاؤنڈ) کی سیلز کیں۔‘
2۔ بہت ساری چوائسز،چھ لاکھ اشیا برائے فروخت:کسی ایک وقت میں شین کی ویب سائٹ پر چھ لاکھ کے قریب مصنوعات برائے فروخت ہوتی ہیں۔اس کا انحصار ہزاروں تھرڈ پارٹی سپلائرز اور تقریباً 200 کانٹریکٹ مینیوفیکچررز پر ہے جو کہ اس کے صدر دفتر گوانڑو کے قریب موجود ہیں۔مصنف اور چینی ٹیکنالوجی کی کے ماہر میتھیو برینن کے مطابق شین کی سپلائی چین میں موجود چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کو شین یہ معلومات فراہم کرتی ہے کہ کیا چیز ٹرینڈ کر رہی ہے اور کون سی چیز کتنی بک رہی ہے۔اس ڈیٹا کی بنیاد پر چھوٹی کمپنی کسی ایک قسم کے 50 سے 100 یونٹ تیار کرتی ہے۔ اگر وہ کامیاب ہو جائے تو شین مزید آرڈر کرتی ہے ورنہ پھر اسے روک دیا جاتا ہے۔شین تقریباً 25 دن میں نئی مصنوعات متعارف کروا لیتی ہے۔ زیادہ تر ریٹیلرز کے لیے اس میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔شین نے ایچ اینڈ ایم اور زارا کے انٹیڈیکس ماڈل ‘ٹیسٹ اینڈ ریپیٹ‘ ماڈل کو بہت تیز کر دیا ہے۔ بی بی سی کے اندازے کے مطابق شین کے سٹاک میں سے صرف 6 فیصد 90 دن سے زیادہ ان کے پاس ہوتا ہے۔کمپنی اپنے صارفین کے آرڈر براہِ راست انھیں بھیجتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر ان کے گوانڑو کے مضافات میں واقع 16 ملین مربع فٹ کے ویئر ہاؤس سے بھیجے جاتے ہیں۔مگر اس کے پیکج کو برطانیہ یا امریکہ جیسی مارکیٹوں میں پہنچنے تک کم از کم ایک ہفتہ لگ جاتا ہے جبکہ ان کے مقابل بوہو، ایسوس یا او پولی نامی کمپنیوں کی اشیا آئندہ روز تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔
3۔ یہ سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہے، 250 ملین فالوئرز:شین کے سوشل میڈیا چینلز پر 250 ملین سے زیادہ فالوئرز ہیں جو کہ انھوں نے طالبہ ‘کیمپس سفیران‘ اور جورجیہ ٹوفولو جیسی سلیبریٹیز کی مدد سے بنائے ہیں۔گلوبل ڈیٹا کی ریٹیل تجزیہ کار ایملی سالٹر کہتی ہیں کہ ‘شین کی کامیابی میں اس کی آن لائن موجودگی کا برانڈ آگاہی اور انگیجمنٹ کے حوالے سے اہم کردار ہے۔‘منتخب انداز میں تشہیر اور انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر انفلوئنسرز کی مدد سے یہ کمپنی نوجوان ترین صارفین کے لیے اہم بن گئی ہے۔اس سب کے ساتھ کمپنی اکثر لائیو شو بھی کرتی ہے جس میں وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کرتی ہے۔ایملی کہتی ہیں کہ ‘لائیو شوز مغربی کمپنیاں کم ہی استعمال کرتی ہیں، اس لیے یہ شین کی سیلز میں اضافہ کر سکتا ہے۔‘تاہم صارفین کی معلومات کے استعمال کے حوالے سے برطانیہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ویب ڈیزائن کی کمپنی روگ میڈیا نے شین کا حال ہی میں بے ایمان قرار دیا تھا اور انھوں نے آٹھ ایسے مواقعوں کی نشاندہی کی جس میں کمپنی لوگوں کو زیادہ پیسے خرچنے اور اپنا نجی ڈیٹا دینے کے عوض انعامات اور ڈسکاؤنٹ پیش کرتی ہیں۔فارن افیئرز کمیٹی کے سربراہ ٹام ٹوجنڈھاٹ کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگ سستے کپڑوں کے لیے اپنا ڈیٹا بیچ رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ جب بھی کسی چیز کی قیمت بہت ہی اچھی ہو تو آپ کو سوچنا چاہیے کہ اس کی قیمت کون ادا کر رہا ہے اور کیسے؟‘کورونا وائرس کے پہلے لاک ڈاؤن میں 27 سالہ ہیدر مکری نے سوچا کہ وہ گھر پر یوٹیوب کی مدد سے جو ورزش کرتی ہیں اس کے لیے انھیں کچھ لیگنز آرڈر کرنی چاہییں۔شین کے فیس بک پر اشتہارات پر ان کی نظر پڑی۔ ‘کیونکہ یہ فاسٹ فیشن کمپنی ہے آپ ہر روز جا کر دیکھ سکتے ہو کہ ہر دن نئے کپڑے مناسب قیمت پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ ‘اس کے ساتھ ہی انھوں نے گھر کی کچھ اشیا اور جوتے بھی خرید لیے اور یہاں تک کہ انھوں نے اپنی والدہ کو بھی اس وقب سائٹ پر شاپنگ میں لگا دیا۔وہ کہتی تاہم یہاں پر مسائل بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ ڈسکاؤنٹ والی چیزوں کی کوالٹی بالکل اچھی نہیں تھی۔وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ انھوں نے آن لائن یہ اعتراضات دیکھے ہیں کہ یہ کمپنی ماحولیاتی نقصان بہت کرتی ہے، یا اپنے ملازمین کو کم پیسے دیتی ہے، ہیدر کہتی ہیں کہ وہ دوبارہ وہاں شاپنگ کریں گی۔وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال میں میرے کسی بھی ایکشن سے شاید ہی ہوکیی فرق پڑے۔‘
4۔ 200 ڈیزائنر یہاں کام کرتے ہیں:اتنی ساری اشیا اتنی تیزی سے فراہم کرنے کا مطلب ہے کہ شین پر کافی تنقید بھی کی گئی ہے۔ اس نے ایک مرتبہ مسلم جائے نماز کو یونانی قالین کہہ کر فروخت کرنے کی کوشش کی۔اس پر کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کرنے کا بھی الزام لگ چکا ہے، اس سلسلے میں مقدمات بھی ہوئے ہیں۔ مگر کمپنی کے 7000 ملازمین میں سے 200 ڈیزائنرز ہیں۔شین کے سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس ایک ایسی ٹیم بھی ہے جو نئے ڈیزائنوں کی جانچ پڑتال کرتی ہے تاکہ کاپی رائٹس کے مسائل نہ ہوں۔اب تک کمھنی نے آزادانہ ڈیزائنرز کو تقریباً دس لاکھ ڈالر دیے ہیں، کمپنی کے بارے میں ٹوئٹر پر ابھی بھی بہت سے لوگ شکایات کرتے رہتے ہیں۔کمپنی کا ریٹیلر ٹٹوریئل پروگرام شین ایکس نے حال ہی میں ایک مقابلہ کروایا جس میں نوجوان ڈیزائنرز کو ایک لاکھ ڈالر تک انعام کی رقم دی گئی اور ان کی کلیشن کی تشہیر کا موقع فراہم کیا گیا۔تاہم سوشل میڈئا صارفین نے اس اقدام پر تنقید کی اور یہ سوال اٹھایا کہ فیشن ڈیزانر کرسچن سیرانو اور سلیبریٹی کلوئی کارڈئشئین اس پروجیکٹ سے اپنا نام کیوں منسلک کریں گے۔
5۔ ماحولیات کے بارے میں سوالات:شین کی اشیا کی قیمتوں کی وجہ سے ان کے ماحول پر منفی اثرات اور کمپنی کے ملازمین کے ساتھ رویے کے بارے میں بھی تنقید کی جا رہی ہے۔فیشن کی صنعت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق فیشن کی صنعت عالمی سطح پر کاربن کے کل اخراج میں سے 8 فیصد کا ذمہ دار ہے۔ماحول دوست فیشن سٹائلسٹ روبرٹا لی اس بات کی نشادہی کرتی ہیں کہ شین اور اس کی طرح کی دوسری فاسٹ فیشن کمپنیاں پولیسٹر کا کپڑا استعمال کرتی ہیں جس کی تیاری کا انحصار زمین سے قدرے زیادہ تیل اور کوئلہ نکالنے پر ہوتا ہے اور یہ وقت کے ساتھ قدرتی اشیا کی طرح ڈیگریڈ نہیں ہوتا۔ان کمپنی پر الزام لگاتی ہیں کہ یہ لوگوں کے کپڑے ایک سے زیادہ دفعہ پہننے کے حوالے سے خوف کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ویڈیوز میں استعمال ہونے والے کپڑوں کے ڈھیر چند مرتبہ ہی پہننے جانے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا کم مقدار میں کپڑے تیار کرنے کا طریقہ زیادہ بہتر ہے اور اس سے ضیاع کم ہوتا ہے۔ کمپنی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا بزنس ماڈل لوگوں کی خواہشات اور انونٹری کے عمل کو بیلنس کرتا ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر ریسائیکل کپڑوں کی تعداد کو بڑھانا ایک ہدف ہے اور وہ جو پرنٹنگ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں وہ روایتی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست ہے۔دوسری جانب بی بی سی نیوز کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کمپنی میں ملازمت کے لیے جو اشتہار دیے جاتے ہیں ان میں لکھا جاتا ہے کہ کچھ مخصوص نسل کے لوگ جیسے کہ اویغر برادری کے افراد درخواست دینے کی زحمت نہ کریں۔تاہم شین کا کہنا ہے کہ وہ ان اشتہارات کے لیے نہ تو مالی وسائل دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی منظوری دیتے ہیں اور وہ لیبر کے حوالے سے اعلیٰ ترین معیار قائم رکھنا چاہتے ہیں۔شین کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جبری مزدوری یا امتیازی سلوک ک بارے میں سخت پالیسیاں ہیں۔