شنگھائی لاک ڈاؤن: چین میں بیروزگاری انتہائی بلند سطح پر
شنگہائی،مئی۔چین میں بے روزگاری کی شرح اپریل میں بڑھ کر 6.1 فیصد ہوگئی، جو فروری 2020 میں کووڈ 19 وبا کے ابتدائی دنوں میں دیکھنے میں آنے والی شرح 6.2 فیصد کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب لاک ڈاؤن کو وسیع کرنے کی وجہ سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی سرگرمیوں میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔سرکاری اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پرچون فروشوں اور صعنت کاروں کو سخت نقصان پہنچا۔مارچ اور اپریل میں درجنوں شہروں میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا، جس میں تجارتی مرکز شنگھائی کی طویل بندش بھی شامل تھی۔چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے حال ہی میں 2020 کے بعد وائرس کے بدترین پھیلنے کے بعد ملک کی روزگار کی صورتحال کو ’پیچیدہ اور سنگین‘ قرار دیا۔پھر بھی، حکومت کا مقصد اس سال مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح کو 5.5 فیصد سے کم رکھنا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ اس وقت ہوا جب لاک ڈاؤن کا چین کی معیشت پر اثر پڑا۔چین کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق، پرچون فروخت میں مارچ 2020 کے بعد سب سے بڑی مندی دیکھی گئی کیونکہ وہ اپریل میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 11.1 فیصد سکڑ گئی۔یہ مارچ کے 3.5 فیصد گراوٹ سے کہیں زیادہ خراب تھا اور ماہرین اقتصادیات کی 6.1 فیصد کمی کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔اسی وقت صنعتی پیداوار میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 2.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی، کیونکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات کا سپلائی چین پر بڑا اثر پڑا۔تاہم، شنگھائی نے پیر کے روز اگلے مہینے کے آغاز سے مزید معمول کی زندگی کی واپسی اور چھ ہفتوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے لیے منصوبے مرتب کیے۔ابھی تک کے واضح ترین ٹائم ٹیبل میں، ڈپٹی میئر زونگ منگ نے کہا کہ مالیاتی، مینوفیکچرنگ اور تجارتی مرکز کو دوبارہ کھولنے کا عمل مرحلہ وار کیا جائے گا، جس میں بتدریج نرمی سے پہلے، انفیکشن میں اضافے کو روکنے کے لیے نقل و حرکت پر پابندیاں بڑی حد تک 21 مئی تک برقرار رہیں گی۔شنگھائی میں نامہ نگار رابن برانٹ کے مطابق شنگھائی میں قرنطینہ مراکز کے باہر مزید کوئی مثبت کیس رپورٹ نہیں ہوئے اور یہ ایک اہم ہدف تھا۔اگرچہ سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ’ہلچل‘ واپس آ رہی ہے، لیکن اس کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ان دعووں کے باوجود کہ رہائشیوں کی اکثریت گھومنے پھرنے کے لیے آزاد ہے، زمینی حقائق کی رپورٹنگ بہت مختلف ہے۔’میں ابھی تک اپنے گھر میں قید ہوں۔ بی بی سی کی ٹیم کے دیگر ارکان کو بھی مختلف مقامات پر اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔‘خوراک اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کچھ لوگوں کے لیے محدود ہے۔ کچھ دکانیں کھل رہی ہیں، لیکن ابتدائی طور پر صرف ’آف لائن‘ کاروبار دوبارہ شروع ہوگا۔روزانہ رپورٹ ہونے والے مثبت کیسز کی تعداد بھی اب سینکڑوں میں آ گئی ہے، اور یہ ایسی جگہ نہیں ہے جو کھل رہی ہو تاکہ ہر کوئی کم از کم گھومنے پھرنے کے لیے آزاد ہو۔