سینیٹ کے بعد ایوانِ نمائندگان میں بھی بائیڈن پالیسی کا پوسٹ مارٹم

اعلیٰ فوجی قیادت سے استعفے کا مطالبہ

واشنگٹن،ستمبر۔امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں افغان جنگ کے خاتمے پر فوج کی اعلیٰ قیادت کو بدھ کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض ارکان نے فوجی قیادت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جب کہ بعض نے مشکل صورتِ حال میں بہتر نتائج پر ان کی تعریف کی۔وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق افغانستان سے انخلا پر سب سے زیادہ تنقید ری پبلکنز کی طرف سے ہوئی، جن میں بہت سے رہنماؤں نے بار بار امریکی صدر جو بائیڈن کو اعلیٰ فوجی حکام کے مشورے کے خلاف امریکی جنگی کارروائیاں ختم کرنے اور گزشتہ ماہ افغانستان سے آخری امریکی فوجی دستوں کو نکالنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔بدھ کو ریاست الباما سے ری پبلکن رکن مائیک راجرز، جو ہاؤس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اہم رکن ہیں، نے کہا کہ اس سے ہٹ کر کہ آپ (صدر بائیڈن) افغانستان سے فوجیں نکالنے کے فیصلے پر کیا محسوس کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ بلاشبہ یہ ایک بڑا تباہ کن فیصلہ تھا۔ ریاستِ فلوریڈا سے ری پبلکن رکن میٹ گائٹز نے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارک ملی، اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ فرینک میکنزی سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں آپ لوگ شاید استعفیٰ نہ دیں لیکن اگر ہمارے صدر اس قدر کنفیوز نہ ہوتے تو وہ آپ کو عہدوں سے ہٹا چکے ہوتے اور آپ اسی چیز کے حق دار ہیں۔ جماعتی بنیادوں پر تنقید اس قدر بڑھ گئی کہ کمیٹی کے ڈیموکریٹک چیئرمین، رکن ایوانِ نمائندگان ایڈم اسمتھ کو بار بار مداخلت کرنا پڑی اور انہوں نے ان دلائل کو ’’بنیادی عدم اخلاص قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی طور یہ کہنا جائز نہیں کہ ہمارے سامنے جو جینٹلمین موجود ہیں وہ زیادہ اہل، زیادہ ذہین یا اس ملک کے ساتھ زیادہ پر عزم نہیں ہیں۔ ان کے بقول ایسا کہنا جماعتی موقع پرستی ہے۔ایڈم اسمتھ نے مزید کہا کہ آپ کسی بھی جنرل کو چن لیجیے، اپنے پسندیدہ صدر کو لے آئیے، اپنے پسندیدہ رہنما لے آئیے، ان میں سے کوئی بھی وہ کچھ مکمل کامیابی کے ساتھ نہیں کر سکتا جو یہاں بیٹھے ہمارے بہت سے اراکین کمیٹی کہہ رہے اور ان جینٹلمیں کو بتا رہے ہیں کہ وہ بے وقوف ہیں اور یہ کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔چار گھنٹوں کی شہادت کے دوران سینٹ کام کے سربراہ جنرل میکنزی اور جوائنٹ اسٹاف جنرل مارک ملی نے کہا کہ وہ بار بار اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ افغانستان کے اندر 2500 فوجی متعین رکھے جائیں، اگرچہ یہ منصوبہ خطرات سے خالی نہیں تھا۔فوجی حکام اور اراکینِ کانگریس نے اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے فیصلے کی تعریف کی البتہ انخلا کے آخری دنوں میں ہونے والی تباہی کی مذمت کی۔جنرل میکنزی نے اس موقع پر اراکین کانگریس کو بتایا کہ افغانستان میں 2500 فوجیوں کو رکھا جاتا اور جیسا کہ وزیرِ دفاع نے بھی بیان کیا کہ اس بارے میں خطرہ ضرور موجود رہتا کہ طالبان ہم پر حملے شروع کر دیتے۔جنرل ملی کا بھی کہنا تھا کہ 2500 امریکی فوجی افغانستان کے اندر تعینات رکھنے سے افغانستان کی حکومت اور افغان سیکیورٹی فورسز کا مورال بلند رکھا جا سکتا تھا اور غالباً اس سے وہ اگست کے وسط میں انتہائی تیزی سے ہتھیار نہ ڈال دیتے۔تاہم جنرل ملی نے اراکین کانگریس کو بتایا کہ انہوں نے تقریباً پانچ سال پہلے بتا دیا تھا کہ افغانستان کے اندر جنگ امریکی فوجی وسائل کے ساتھ ناقابلِ فتح ہے۔ایک روز قبل سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں جنرل ملی نے افغانستان میں امریکہ کی بیس برسوں پر محیط طویل ترین جنگ کو ایک اسٹریٹجک ناکامی قرار دیا تھا، باوجود اس کے کہ امریکی فوج نے اپنے ایک لاکھ 24 ہزار افراد کو بشمول چھ ہزار امریکیوں کے، سترہ دن کے اندر کابل سے باہر نکالا۔جنرل ملی کا کہنا تھا کہ اس وقت کابل میں دشمن کا کنٹرول ہے، اس کو اور کس طرح سے بیان کیا جائے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بات جب افغانستان سے انخلا کی ہو گی تو میرے خیال میں آخر میں صورتِ حال یہی بنتی، چاہے آپ جب بھی انخلا کرتے۔بدھ کو ایوانِ نمائندگان کے اراکین نے بھی افغانستان سے انخلا کی کوششوں پر تنقید کی اور کہا کہ بہت سے امریکیوں اور ان افغان شہریوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا جنہوں نے امریکہ کی مدد کی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ کا مؤقف:وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کمیٹی کے اراکین سے وعدہ کیا کہ اگرچہ اس وقت افغانستان میں امریکی فوجی زمین پر موجود نہیں ہیں۔ لیکن پینٹاگان افغانستان سے، جس قدر ممکن ہو سکے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو باہر نکال لائے گا۔لائیڈ آسٹن نے بتایا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں ہم نے مزید 63 امریکی شہریوں کو اور 169 مسقل سکونت رکھنے والوں کو افغانستان سے نکالا ہے۔وزیر دفاع نے مزید کہا کہ امریکی فوج افغانستان سے کسی بھی طرح کے دہشت گردی کے ممکنہ خطرے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ چاہے یہ خطرہ القاعدہ سے آتا ہے یا داعش کے گروپ سے۔عہدیداروں کا خیال ہے کہ آئندہ تین برسوں میں کبھی بھی اس طرح کا خطرہ جنم لے سکتا ہے۔تاہم دفاعی عہدیداروں اور وائٹ ہاؤس کا اصرار ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے فضا سے ڈروں حملوں کے ذریعے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تاہم وہ اقرار کرتے ہیں کہ زمین پر ان کے فوجی نہ ہونے کی وجہ سے اس کام میں مشکلات ضرور ہیں۔جب سوال کیا گیا کہ آیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ ایک مرتبہ پھر اپنے فوجی، مستقبل میں کسی بھی موقع پر افغانستان بھجوائے؟ اس پر وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ وہ اس امکان کو مسترد نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ میں صرف یہ کہوں گا کہ اس بارے میں وقت سے پہلے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا ہم واپس جائیں گے یا ہمییں جانا پڑے گا۔

Related Articles