سڈنی:106 دن سے جاری لاک ڈاؤن پیر کے دن اٹھا لیا گیا
سڈنی،اکتوبر۔کووڈ 19 کی وبا پھیلنی کے بعد شہریوں کو ویکسین لگانے پر پابند کرنے کے لیے آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر، سڈنی میں 106 دن تک لاک ڈاؤن جاری رہا جسے پیر کے روز اٹھا لیا گیا۔ گھر پر محدود رہنے کے احکامات 26 جون کو جاری کیے گئے تھے، جنھیں آج ہٹایا گیا۔حکومت کی جانب سے جاری کردہ اشتہارات میں آسٹریلیا کے شہریوں سے استدعا کی جاتی رہی ہے کہ وہ کووڈ 19 کی ویکسین لگوائیں۔ اشتہارات میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ تمام نوعیت کی آزادی تب ہی میسر آئے گی جب ویکسین کی سطح طے شدہ ہدف تک پہنچے گی۔ یہ پیغام تمام لوگوں کو پہنچایا جاتا رہا ہے۔یہ طویل ترین لاک ڈاؤن دارالحکومت سڈنی کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں 106 دنوں تک جاری رہا۔ اسے پیر کے دن اس وقت اٹھا لیا گیا جب 16 سال اور اس سے زائد عمر کے 70 فی صد افراد کو ویکسین لگ چکی ہے۔جون کے اواخر کے بعد آج پہلی بار جم خانہ، ریستوران اور ہیئرڈریسروں کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ گھروں پر محدود تعداد میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے، جب کہ پارکوں اور ساحل سمندر پر کافی تعداد میں لوگ اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس قسم کی آزادی ان لوگوں کو میسر ہو گی جو ویکسین کے مکمل ڈوز لگوا چکے ہیں۔تاہم، تمام شہریوں پر سڈنی سے باہر سفر پر جانے کی پابندیاں اب بھی لگی ہوئی ہیں۔ یہ قوانین تب تک جاری رہیں جب تک نیو اور ساؤتھ ویلز میں ویکسین لگوانے کی شرح 80 فی صد نہیں پہنچ جاتی۔ یہ ہدف پورا ہونے کے بعد ہی بین الاقوامی سفر بحال ہونے کی اجازت ملے گی، جو مارچ 2020ء سے سخت بندشوں کا شکار ہے۔لیکن حکام کے خیال میں پابندیاں ہٹنے کے بعد امکان ہے کہ کرونا وائرس کا انفیکشن بڑھے گا۔ساؤتھ ویلز کی ریاست کے وزیر اعظم، ڈومینک پروت نے اس سلسلے میں محتاط اور مرحلہ وار انداز اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔پروت نے کہا کہ جب ہم اس مرحلے سے گزریں گے، تو ہمیں چیلنج درپیش ہوں گے۔ میرے خیال میں ملک کی ہم پہلی ریاست ہیں جو اس راستے پر چل پڑی ہے جہاں پبس، ریستوران اور قہوہ خانوں کی جانب جانے والوں کے لیے ویکسین شدہ ہونا لازم ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ لیکن، میرے خیال میں ایسے میں ہر کوئی ایک دوسرے کا عزت و احترام کے ساتھ خیال رکھے گا۔ امید ہے کہ ہم محفوظ رہیں گے ۔صحت عامہ کے کارکنان، اساتذہ اور دیگر پیشوں سے وابستہ افراد کے لیے آسٹریلیا میں ویکسین لگوانا لازم قرار دیا گیا ہے۔ ملک میں ادویات کے نگراں ادارے نے واضح کیا ہے کہ ویکسین لگوانا محفوظ اور مؤثر عمل ہے۔ اس کے باوجود، آسٹریلیا کی تقریباً 10 فی صد آبادی کووڈ 19 کی ویکسین لگوانے سے خائف ہے۔ڈبلیو ایچ او کی ٹیکنیکل سربراہ ماریہ وین کرخوو کے مطابق ڈیلٹا ویریئنٹ انتہائی تیزی سے پھیلتا ہے جس نے دنیا بھر میں پھیلنے والی دیگر مختلف اقسام کی جگہ لے لی ہے۔سڈنی کے باشندے، جمال داؤد کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین کے محفوظ ہونے کے دعوے پر اعتماد نہیں کرتے۔داؤد کے بقول، میں نہیں سمجھتا کہ یہ وبا اتنی مہلک ہے کہ لوگوں کو ویکسین لینے پر مجبور کیا جائے، یہ ابھی تک محفوظ ثابت نہیں ہوئی۔ ہمارے پاس اتنے اعداد وشمار موجود نہیں ہیں کہ ہم یہ سمجھیں کہ ویکسین لگوانا محفوظ عمل ہے ۔نیو ساؤتھ ویلز میں جب 90 فی صد آبادی کو ویکسین لگ چکی ہو گی تب جا کر ویکسین نہ لگوانے والوں پر عائد تمام قسم کی پابندیاں ہٹ سکتی ہیں۔تاہم، آسٹریلیا کے شہروں میلبورن اور کینبرا میں لاک ڈاؤن جاری ہے، جہاں لاکھوں لوگ بستے ہیں۔وبا کی ابتدا سے اس وقت تک آسٹریلیا میں کرونا وائرس کے 127،500 انفیکشنز کی تصدیق ہو چکی ہے، جب کہ اب تک 1400افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔