سڈنی میں دو سعودی بہنوں کی ہلاکت کا معمہ جو پولیس حل کرنے میں ناکام ہے
سڈنی،اگست۔سات جون کو آسٹریلیائی حکام نے سڈنی میں ایک فلیٹ کے دروازے پر دستک دی۔ دروازے کے باہر ڈاک کا ایک ڈھیر پڑا تھا اور کرائے داروں نے تین ماہ سے بھی زیادہ وقت سے کرایہ نہیں دیا تھا۔اندر اْنھیں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں کی لاشیں ملیں جو کئی ہفتوں سے الگ الگ بیڈرومز میں پڑی ہوئی تھیں۔دو ماہ بعد پولیس ’وسیع پیمانے پر تفتیش‘ کے باوجود اب بھی یہ نہیں جان پائی ہے کہ 24 سالہ اسریٰ عبداللہ السہلی اور 23 سالہ امل عبداللہ السہلی کے ساتھ ہوا کیا تھا۔پولیس نے کہا کہ اپارٹمنٹ میں زبردستی گھسنے کی کوئی علامات نہیں ملیں اور نہ ہی زخموں کے کوئی واضح نشانات پائے گئے۔ پولیس نے ان اموات کو ’غیر معمولی‘ اور ’مشکوک‘ قرار دیا۔پولیس کو اب بھی کورونر کی رپورٹ کا انتظار ہے تاکہ ان کی موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔ مقامی میڈیا کے مطابق زہر خورانی اور پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ بے نتیجہ رہی ہیں۔تفتیش کار انسپیکٹر کلاڈیا آلکروفٹ نے گذشتہ ماہ عوام سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے رپورٹرز کو بتایا کہ ’ہم ان لڑکیوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ ہمیں امید ہے کہ کوئی ہمارے تفتیش کاروں کی مدد کر سکے گا۔‘اس حوالے سے کم ہی معلومات عوام کے لیے جاری کی گئی ہیں۔ یہ دونوں سنہ 2017 میں سعودی عرب سے پناہ کی تلاش میں آسٹریلیا آئی تھیں مگر حکام نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان پر شک کرنے کی ’کوئی وجہ نہیں۔‘دونوں خواتین ایک ہنری تربیت کے مرکز میں پڑھائی کرنے کے ساتھ ساتھ بطور ٹریفک کنٹرولر کام کر رہی تھیں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کیا پڑھ رہی تھیں۔ان بہنوں کے پڑوسیوں نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ زیادہ تر اپنے آپ میں ہی رہتی تھیں۔وہ جس عمارت میں رہتی تھیں، اس کے منتظم مائیکل بیئرڈ نے میڈیا کو بتایا کہ اپنی موت سے چند ماہ قبل لڑکیوں نے ان سے سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنے کے لیے کہا تھا۔ مائیکل بیئرڈ نے بتایا کہ اْنھیں خدشہ تھا کہ ان کی فوڈ ڈیلیوری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے۔ مگر سی سی ٹی وی فوٹیج سے کچھ معلوم نہیں ہوا۔مائیکل بیئرڈ نے مارچ میں پولیس سے کہا تھا کہ وہ اْن کی خبر لیں۔ ان لڑکیوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ ٹھیک تھیں۔اْنھوں نے سڈنی مارننگ ہیرالڈ کو بتایا کہ جب وہ بعد میں اْن سے خود ملنے گئے تو دونوں لڑکیاں ’کسی چیز سے خوف زدہ دو چھوٹی چڑیوں‘ کی طرح لگ رہی تھیں۔پولیس اس حوالے سے کچھ بھی نہیں بتا رہی ہے اور سڈنی میں یہ معاملہ بڑی عوامی دلچسپی حاصل کر رہا ہے۔ کیا یہ خودکشی تھی، کسی اور کی حرکت، یا پھر کچھ اور؟مقامی میڈیا میں آنے والی اطلاعات شاید کچھ سراغ فراہم کر سکیں مگر پولیس نے ان میں سے کسی کی بھی تصدیق نہیں کی ہے۔ اس کے علاوہ ان سب معلومات سے تضادات کی حامل تصویر بن رہی ہے۔اخبار دی آسٹریلیئن نے خبر دی کہ ان میں سے ایک خاتون کو اپنی جنسیت کی وجہ سے سعودی عرب میں نشانہ بنائے جانے کا خدشہ تھا اور دوسری خاتون مذہب چھوڑ چکی تھیں۔ سعودی عرب میں ہم جنس پرستی اور لادینیت دونوں ہی غیر قانونی ہیں۔آسٹریلیئن براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) کی خبر کے مطابق دونوں کے کمروں میں مسیحی صلیبیں ملیں۔ ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ اْن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں اور وہ کرایہ ادا کرنے میں مشکلات کی شکار تھیں۔ایک نامعلوم شخص نے اے بی سی کو بتایا کہ اس نے ان لڑکیوں کی موت سے قبل کئی مرتبہ ان کی عمارت کی لابی میں ایک نامانوس شخص کو دیکھا گیا۔ جب اس شخص سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ وہ ان لڑکیوں کے اپارٹمنٹ سے ہی ہے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بڑی بہن اسریٰ نے سنہ 2019 میں ایک گمنام شخص کے خلاف عدالت سے پابندیوں کا آرڈر حاصل کیا تھا مگر بعد میں وہ اس سے دستبردار ہو گئیں۔پولیس نے ان میں سے کسی بھی اطلاع پر تبصرہ نہیں کیا ہے اور بی بی سی ان کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔یہ اپارٹمنٹ ایک مرتبہ پھر کرائے کے لیے خالی ہے اور اس کے اشتہار میں لکھا ہے: ’پولیس کے مطابق یہ کوئی معمول کا جرم نہیں ہے اور عوام کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ نہیں بنے گا۔‘اسریٰ اور امل کی اموات نے آسٹریلیا میں سعودی خواتین کو خوف زدہ اور غم زدہ کر دیا ہے۔صفہ نامی ایک فنکار اور سماجی کارکن نے کہا کہ ’ہم میں سے کئی اب محتاط ہو گئی ہیں۔‘اْنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سعودی حکام اور خاندان ملک سے فرار ہو جانے والی لڑکیوں کے لیے بیرونِ ملک بھی خطرہ بنے رہ سکتے ہیں۔اْنھوں نے سنہ 2017 میں سعودی عرب سے فلپائن پہنچنے والی دی علی لسلوم کی جانب اشارہ کیا جنھیں اْن کا خاندان زبردستی سعودی عرب لے گیا تھا۔ تب سے اب تک کسی نے اْن کے بارے میں نہیں سنا ہے۔چونکہ اسریٰ اور امل سعودی عرب چھوڑنے میں کامیاب ہو گئی تھیں اس لیے صفہ کو یہ بات تسلیم کرنے میں دشواری ہے کہ ان لڑکیوں نے پانچ سال تک سڈنی میں رہنے کے بعد اپنی جان لے لی۔شہر میں موجود پناہ کے متلاشی سعودیوں میں سے زیادہ تر لوگ ان کو جانتے تھے تاہم صفہ کے مطابق چھ ماہ پہلے ان کا رابطہ سب سے منقطع ہو گیا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’واضح ہے کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا جس کی وجہ سے وہ انتہائی خوف زدہ اور الگ تھلگ ہو گئیں۔‘ہیومن رائٹس واچ کی محقق سوفی میکنیل کہتی ہیں کہ قطع نظر اس کے کہ خواتین کی موت کیسے ہوئی، یہ واضح ہے کہ آسٹریلیا نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔اْنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پناہ کے متلاشی کسی بھی شخص کے لیے زندگی ’بے حد مشکل‘ ہوتی ہے مگر سعودی خواتن ’بالخصوص خطرے کی زد میں‘ ہوتی ہیں۔سوفی کہتی ہیں کہ ’اگر آپ شامی یا افغان ہیں تو آپ اسی صورتحال میں موجود کافی لوگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں مگر پناہ کی متلاشی سعودی خواتین کی تعداد بہت کم ہے اور یہاں بہت زیادہ خوف ہے۔‘اس کے علاوہ ایسی زیادہ تر خواتین کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا میں پناہ کے متلاشیوں کو تب تک ایک معمولی سی رقم ملتی ہے جب تک کہ ان کے کیس پر کام جاری ہوتا ہے۔سوفی میکنیل کہتی ہیں کہ ’اکثر اوقات وہ بہت ناز و نعم میں پلی بڑھی ہوتی ہیں اس لیے فرار ہونا ایک انتہائی بہادرانہ اور زبردست فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے مالی استحکام کو ٹھوکر مار دیتی ہیں۔‘صفہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ خواتین کو انوکھے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی ویزا درخواستیں مسترد ہونے کی جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اگر وہ درست ہیں تو یہ فیصلہ ’لاپرواہی پر مبنی‘ تھا جس سے اْنھیں اضافی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔صفہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اب بھی یہ سوچ کر عجیب لگ رہا ہے کہ ان کے پاس مدد کے لیے کوئی نہیں تھا، جو اْن کی مختلف راستوں پر رہنمائی کرتا۔‘سوفی اور صفہ دونوں کے مطابق اس کیس سے اعادہ ہوتا ہے کہ آسٹریلیا کو پناہ کی متلاشی سعودی خواتین کے لیے زیادہ بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔سوفی کہتی ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ وہ بہت تنہا اور خوف زدہ محسوس کر رہی ہوں گی۔ وہ یہاں حفاظت کی تلاش میں آئی تھیں اور ہم نے ان کی مدد نہیں کی۔‘