سٹیو جابز: وہ خوبیاں جن کی وجہ سے ایپل کے بانی نے ایک منفرد مقام بنایا
نیویارک،اکتوبر۔سٹیو جابز کا چہرہ انتہائی معروف اور شخصیت بہت پرکشش تھی۔ 56 سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے ان کے انتقال کے دس سال بعد ان کی کچھ ایسی خصوصیات کا ذکر جنھوں نے انھیں دنیا کا معروف ترین سی ای او بنا دیا۔آپ کیا چاہیتے ہیں، اس چیز کی ضرورت پیدا ہونے سے پہلے جان جاناسٹیو جابز مارکیٹ ریسرچ کے مداح نہیں تھے۔ ان کا ایک قول جو بڑا مشہور ہوا تھا اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آپ صارفین سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ انھیں کیا چاہیے۔ جب تک آپ وہ بنائیں گے، انھیں کچھ اور چاہیے ہو گا۔‘اس کے بجائے وہ اپنے خیالات اور جدت بھری سوچ پر انحصار کرتے تھے اور نئی نئی چیزیں بنا کر انھیں ایسے جوڑتے تھے کہ جس طرح صارفین انھیں استعمال کرنا چاہتے تھے۔2001 میں آئی پوڈ کے آنے سے قبل ایم پی تھری پلیئر میں لوگوں کی اتنی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ مارکیٹ میں موجود ضرور تھے مگر ان کا استعمال اتنا آسان نہیں تھا، ان کا حجم بڑا تھا اور زیادہ ٹیکنالوجی کے شائقین ہی اسے خریدتے تھے۔آئی پوڈ، آئی فون، اور آئی پیڈ لوگوں میں انتہائی مقبول ہوئے۔ اور اس کا سہرا سٹیو جابز کے بطور ایک سیلز مین ہنر کو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے پروڈکٹس کے بارے میں انتہائی سادہ انداز میں لوگوں کو بتاتے تھے۔سٹیو جابز کو لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرنا آتا تھا۔ وہ لوگوں میں کبھی ایسی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی دلچسپی پیدا کر لیتے تھے جو نہ تو نئی تھی نہ ہی دنیا کو تبدیل کرنے والی تھی۔جب آئی پیڈ 2 متعارف کروایا گیا تو ان کی پریزنٹیشن میں کافی وقت اس کے سمارٹ کوور پر لگایا گیا جو کہ وینائل کا بنا ہوا تھا اور اس میں مقناطیسی ہنگز تھیں۔ پھر بھی اس کی کافی میڈیا کوریج کی گئی۔حالانکہ تجربہ کار صحافی بھی اس سے بچ نہ سکے اور ان میں سے کئی کو کافی گھنٹے لگ گئے ان کے اعلانات کو سمجھنے میں۔اس رجحان کو ریئلٹی ڈسٹورشن فیلڈ کہا جانے لگا۔تقریباً ایک دہائی تک سٹیو جابز نے صرف ایک ہی انداز کے کپڑے پہنے۔ کالے رنگ کا ٹرٹل نیک سوئیٹر، نیلے رنگ کی لیوائیز کی 501 جینز اور نیو بیلنس ک 991 جوگر۔یہ چیزیں شاید سادگی کی عکاسی کرتی تھی یا پھر برانڈنگ کے شوق کی۔ ان کے اس مشہور لباس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ وہ دوستوں کو کہا کرتے تھے کہ انھیں اپنی ظاہری حالت سے کوئی غرض نہیں تھی۔مگر ایسا ہمیشہ نہیں تھا۔ 1980 کی دہائی میں وہ اکثر شاندار اطالوی سوٹوں میں نظر آتے تھے یہاں تک کہ وہ بو ٹائی بھی پہنا کرتے تھے۔ان کی مخصوص ظاہری حالت کو کامیڈین اکثر استعمال کرتے تھے۔ایپل اپنے انٹرنل ڈیزائن کے طریقے کار کے بارے میں انتہائی رازداری سے کام لیتا تھا۔ مگر کہانیاں لیک ضرور ہو جاتی ہیں اور ان میں سے بہت ساری کہانیوں میں سٹیو جابز کی باریک بینی نظر آتی ہے۔گوگل کے ایک اہلکار نے اس زمانے کی ایک مثال دی جب ان کی کمپنی ایپل کے آئی فون پر ’گوگل میپس‘ ڈالنے جا رہی تھی۔انھیں سٹیو جابز نے خود کال کی اور اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ گوگل میں دوسرا حرف او پیلے رنگ کے صحیح شیڈ کا نہیں تھا۔اگرچہ برطانوی ڈیزائنر جانتھن ائیو ایپل کی اشیا کی رنگ و صورت کے ذمہ دار تھے مگر ان میں سے کئی کے پیٹنٹ پر جانتھن کے ساتھ ساتھ سٹیو جابز کا بھی نام ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹیو جابز 1960 اور 1970 کی دہائی میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے کاؤنٹر کلچر کی پیداوار تھے۔نوجوانی مں وہ انڈیا میں جا کر ایک آشرم میں رہے۔ مشرقی فلسفہ ان کی زندگی کا حصہ رہا اور وہ اپنی بعد کی زندگی میں بدھمت سے وابستہ رہے۔سٹیو جابز نے اسی وقت ایل ایس ڈی کھانے کا بھی اعتراف کیا۔ انھوں نے اس تجربے کو اپنی زندگی کی اہم ترین دو یا تین چیزوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔بظاہر سٹیو جابز کو پیسے کی زیادہ فکر نہیں تھی۔ انھوں نے وال سٹریٹ جنرل کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’قبرستان میں امیر ترین شخص ہونے سے مجھے کوئی غرض نہیں۔ میرے لیے اہم یہ ہے کہ میں رات کو سوتے وقت یہ کہہ سکوں کہ ہم نے کچھ زبردست کیا ہے۔‘سٹیو جابز کی پسندیدہ موسیقی کا اندازہ ان کی مصنوعات کے لانچ کی تقریبات کی وجہ سے ہو جاتا تھا۔ سنگلز یا ایلبمز اکثر نئے میک کمپیوٹر یا آئی فون کی سکرینوں پر نظر آتی تھیں۔ان کے پسندیددہ فنکاروں میں بیٹلز اور باب ڈیلن تھے۔ آئی ٹیونز کے ذریعے ان چاروں کی موسیقی کو فروخت کرنے کے حوالے سے مسائل کافی عرصے تک جاری رہے جو آخرکار نومبر 2010 میں حل ہوئے۔سٹیو جابز کی ٹاپ 10 ایلبمز اپیل کی سوشل میوزک سروس پنگ پر نشر کی جاتی تھیں جن میں مائلز ڈیوس کا ’کائنڈ آف بلو‘، گریٹفل ڈیڈ کا ’امریکن بیوٹی‘ اور ڈی ہو کا ’ہوز نیکسٹ‘ شامل تھے۔ سٹیو جابز کا باب ڈیلن کی سابقہ گرل فرینڈ گلوکارہ جوئین بائز کے ساتھ کچھ عرصے تک رومانوی تعلق بھی رہا۔آپ کو شاید بہترین چیز کو آخر کے لیے رکھنا ہوتا تھا جو سٹیو جابز اپنی مصنوعات متعارف کرواتے ہوئے ہمیشہ کرتے تھے۔جب بھی وہ کوئی نئی چیز متعارف کرواتے تھے تو تقریب کے بعد جب مہمان اٹھ کر جا رہے ہوتے تھے تو وہ کہا کرتے تھے ‘ایک اور چیز‘۔وہ جب بھی یہ کرتے تو ان کے چہرے پر ایک شرارتی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ یہ ان کی بطور شو مین ذہانت تھی۔‘ایک اور چیز‘ کہہ کر انھوں نے فیس ٹائم کالنگ، پاور بک جی 4، اور آئی پوڈ ٹک متعارف کروائے۔ان کے بعد ایپل کے سی ای او ٹم کک نے 2015 میں اس جملے کو ایپل واچ متعارف کرواتے ہوئے دوبارہ استعمال کیا۔بعد میں یہ جملہ ایک قانونی لڑائی کا حصہ بن گیا جب سوئس واچ کمپنی سواچ نے اس کو رجسٹر کرنے کی کوشش کی۔ مارچ 2021 میں لندن کی ایک عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ اپیل سواچ کو یہ جملہ استعمال کرنے سے روک نہیں سکتی۔ اس طرح سٹیو جابز کا انوکھا انداز آج بھی زندہ ہے چاہے ایک ایسی کمپنی کے ساتھ ہی جس کا وہ انتخاب نہ کرتے۔