سعودی عرب میں مذہبی پابندیوں میں نرمی کے بعد خاتون مصور کے لیے مواقع
ریاض،مارچ۔سعودی مصور عواطف القنیبط ریاض میں اپنے کام کی نمائش کے دوران گیلری میں فخر کے ساتھ چل رہی ہیں، جہاں انسانی شکل کے مجسمے اور مٹی کے برتن کئی دہائیوں کی ثقافتی اور مذہبی پابندیوں میں نرمی کے غماز ہیں۔اس نمائش میں مٹی سے تراشے ہوئے چہرے بھی شامل ہیں، کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے، کچھ نے آنکھوں پر چشمے لگائے ہوئے ہیں، سرخ پتھروں پہ کندہ روایتی لباس میں ملبوس خواتین کی صورتیں بھی ہیں۔60 سالہ عواطف القنیبط جو سعودی عرب کے قدامت پسند ، مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں آرٹ کے میدان میں خواتین کے لیے مثال قائم کر رہی ہیں نے کہا کہ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن یہ نمائش یہاں ریاض کے مرکز میں العلیا میں ہوگی؟ لوگ کہتے تھے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ یہ اسلام میں حرام ہے۔ اب یہ ریاض کے دل میں واقعی ہورہی ہے۔ ماضی میں سعودی عرب میں مذہبی وجوہات کی بنا پر مجسمہ سازی کی ممانعت تھی۔تاہم، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی معاشرے اور فنون لطیفہ پر وہابیت کے اثر کو کم کیا ہے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کئی اصلاحات کی گئی ہیں۔امریکی تعلیم یافتہ العواطف نے کہا کہ انہوں نے 2009 میں مجسموں کی عوامی نمائش پر پابندی کے بعد اپنے گھر کے نیچے ایک نجی گیلری بنا لی۔ان کے فن پاروں کا اب بڑی گیلریوں میں خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔العواطف کے فن پاروں میں اب بھی پابندی کی جھلک نظر آتی ہے ، جن میں زنجیروں سے جکڑے مجسمے شامل ہیں۔ میرے لیے، یہ دو جھٹکے تھے، ایک پہلے اور دوسرا (پابندیوں ) کے بعد میں۔ ہم ایک ایسی نسل ہیں جو بہت سی تبدیلیوں سے گزری ہے ، مکمل پابندی سے لے کر مکمل آزادی تک انہوں نے کہا۔ ان شاء اللہ، ہمیں کچھ توازن مل جائے گا۔