سری لنکا میں سیاسی بحران

 احتجاجی مظاہروں کے بعد صدر راجاپکسے سمیت متعدد وزراء مستعفی

کولمبو،جولائی۔سری لنکا میں ہزاروں مظاہرین کی جانب سے صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوے کے بعد صدر گوٹابایا راجاپکسے نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ احتجاجی مظاہرین نے وزیر اعظم کے گھر کو بھی نذر آتش کردیا۔سری لنکا میں حکام نے اعلان کیا ہے کہ صدر گوٹابایا راجاپکسے اگلے ہفتے مستعفی ہوجائیں گے۔ اسپیکر مہندا یاپا ابی وردینا نے ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ راجاپکسے نے انہیں ذاتی طور پر اقتدار چھوڑنے کے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ابی وردینا نے مزید کہا کہ 13 جولائی کو عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ پر امن طور پر اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، اس لیے میں عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قانون کا احترام کریں اور امن و امان کو برقرار رکھیں۔‘‘قبل ازیں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ہزاروں مظاہرین نے صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس کے چند گھنٹے بعد صدر گوٹابایا راجاپکسے نے اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق راجاپکسے کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
یہ سب کیسے ہوا؟سکیورٹی فورسز نے گزشتہ روز مشتعل ہجوم کو صدارتی محل میں گھسنے سے روکنے کی کوشش میں ہوائی فائرنگ کی لیکن احتجاجی مظاہرین آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ بعد ازاں قومی ٹیلی وڑن پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ مظاہرین عمارت کے باہر اور اندر ہجوم کی شکل میں جمع ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ مظاہرین صدر کی سرکاری رہائش گاہ کے کمروں میں داخل ہوگئے اور بعض افراد سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔اس کے علاوہ مظاہرین نے وزیر اعظم کے گھر کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے مستعفی ہونے پر رضامند ہو گئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ اپنی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ ہنگامی اجلاس کے بعد کیا۔ وکرما سنگھے نے کہا کہ وہ ملک میں جاری مظاہروں اور معاشی بحران کے تناظر میں ایک آل پارٹی حکومت کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کی اس کارروائی کے وقت وزیر اعظم اور ان کی فیملی گھر پر موجود نہیں تھے۔ان اعلانات کے بعد دارالحکومت کولمبو میں جشن کا سماں تھا اور پرجوش مظاہرین کی جانب سے آتش بازی بھی کی جارہی تھی۔علاوہ ازیں امریکہ نے سری لنکا کے رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ طویل مدتی حل تلاش کرنے کے لیے تیزی سے کام کریں۔
سری لنکا میں بدترین معاشی بحران:سری لنکا کئی مہینوں سے اپنی کے تاریخ کے بدترین ترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کے بائیس ملین عوام اس وقت ضروری اشیا کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ سری لنکا پر اس وقت 50 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا غیر ملکی قرض ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں پٹرول، ادویات اور خوراک جیسی ضروری اشیا بہت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے حال ہی میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ اس بحران سے متعلق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت جاری ہے تاہم بیل آؤٹ پیکج پر گفت شنید کا انحصار قرض دہندگان کے ساتھ قرض کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے پر منحصر ہے، جو اگست تک ممکن ہو سکے گا۔

 

Related Articles