سراج الدین حقانی: طالبان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا پہلی مرتبہ منظر عام پر آنا کیا معنی رکھتا ہے؟

کابل،مارچ۔افغان طالبان کے نائب سربراہ اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے گذشتہ دنوں افغان پولیس سے فارغ التحصیل ارکان کی تقریب تقسیم اسناد کی تقریب میں افغان قوم سے پہلی مرتبہ براہ راست خطاب کیا ہے۔گذشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے سراج الدین حقانی نے 19 اکتوبر کو کابل میں اور رواں برس 23 فروری کو قندھار میں طالبان کے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا تھا مگر طالبان ارکان سمیت میڈیا کو اْن کی تصویر لینے یا اسے نشر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔اس طرح یہ پہلی مرتبہ ہے کہ دنیا کے سامنے سراج الدین حقانی کی تصویر آئی ہے۔دارالحکومت کابل کے پولیس ترجمان خالد زدران نے بی بی سی اْردو کو بتایا کہ اس تقریب میں طالبان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالسلام حنفی، طالبان وزرا، پاکستانی سفیر منصور احمد خان سمیت غیر ملکی سفارتکار اور افغان شہریوں نے شرکت کی تھی اور اس تقریب کے دوران خواتین سمیت سینکڑوں نئے فارغ التحصیل افغان پولیس افسران میں اسناد تقسیم کی گئیں۔سراج الدین حقانی طالبان کے سب سے مضبوط گروپ ’حقانی مجاہدین‘ یا ’حقانی نیٹ ورک‘ کے سربراہ ہیں اور اْن کا شمار طالبان کے سب سے بااثر رہنماؤں میں ہوتا ہے اور اْن کی گرفتاری میں مدد دینے پر امریکی حکومت کی جانب سے ایک کروڑ امریکی ڈالرز کا انعام مقرر ہے۔سراج الدین حقانی کی میڈیا اور عوام کے سامنے نہ آنے کی وجہ سے طالبان ناقدین ہمیشہ طالبان کے ملک میں امن کے قیام کے دعوؤں کا مذاق اڑاتے تھے اور بقول اْن کے اگر وزیر داخلہ ہی اپنے عوام سے ’منھ چھپا‘ رہے ہیں تو ملک کے شہری طالبان کے امن سے متعلق وعدوں کا کیسا بھروسہ کر سکتے ہیں؟خالد زدران، جو سراج الدین حقانی کے قریبی ساتھی بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ ’سراج الدین حقانی کا میڈیا پر افغان عام سے براہ راست خطاب کا مقصد یہ تھا کہ افغان عوام کو اطمینان دلوایا جائے کہ ملک میں مکمل امن قائم کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں مزید تشویش کی کوئی ضرورت نہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مقصد سراج الدین حقانی کی تقریر میں بھی نمایاں تھا جن کے مخاطبین افغان عوام اور عالمی برادری تھی۔‘اْن کے مطابق اس تقریر کا ہدف یہ تھا کہ افغان عوام سمیت عالمی برادری کو یہ باور کروایا جائے کہ طالبان سے نہ افغان شہریوں کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی طالبان افغانستان کو مستقبل میں دوبارہ عالمی برادری کے لیے خطرہ بننے دیں گے۔سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ’طالبان کے سربراہ شیخ ہبت اللہ نے دوحہ امن معاہدے کے ذریعے عالمی برادری سے جو وعدے کیے ہیں تمام طالبان اس کی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’امن معاہدے کے بعد کا عرصہ اس کا گواہ ہے کہ طالبان کے مخالفین نے طالبان کو اس امن معاہدہ کی خلاف ورزی پر مجبور کرنے کے لیے ہر قسم کی کوششیں کیں مگر طالبان نے کسی بھی صورت اس معاہدہ سے انحراف نہیں کیا اور نہ ہی وہ آئندہ کریں گے۔‘سراج الدین حقانی نے دعویٰ کیا کہ ’طالبان کے قبضہ اقتدار کے بعد ملک میں مکمل امن قائم کیا جا چکا ہے کابل میں موجود غیر ملکی سفارت کار اور مہمان اس کے شاہد ہیں کہ اگر ان میں سے کسی کو کوئی تکلیف پیش آئی ہو تو طالبان نے فورا اس کو ختم کیا ہے۔‘اس طرح سراج الدین حقانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس تقریب میں موجود خواتین پولیس افسران اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان خواتین کی تعلیم اور کام سمیت دیگر حقوق کے مخالف نہیں، اس لیے کسی کو اس سلسلہ میں تشویش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘سراج الدین حقانی طالبان کے سب سے مضبوط دھڑے یعنی حقانی مجاہدین یا حقانی نیٹ ورک کے بانی سربراہ مولوی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے اور جانشین ہیں۔نائن الیون کے کچھ عرصہ بعد بیماری اور ضعیف العمری کی سبب جلال الدین نے سراج الدین کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور اس طرح اس وقت سے وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں۔ اس طرح اپنے والد کے جانشین ہونے کی وجہ سے اسے طالبان حلقوں میں ’خلیفہ صاحب‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔اگرچہ طالبان تحریک کا آغاز نوے کی دہائی کے اوائل میں جنوبی افغانستان کے صوبہ قندھار سے ہوا تھا اور اس وقت سے اس کی قیادت میں قندھاری طالبان کا کافی اثر و رسوخ تھا مگر نائن الیون کے بعد بتدریج افغانستان کے جنوب مشرقی علاقے کے لوئے پکتیا سے تعلق رکھنے والے حقانی خاندان اور اس سے منسلک جنگجوؤں کی امریکہ و اتحادی افواج اور ان کی حمایت یافتہ کابل کی جمہوری حکومت کے خلاف لڑائی میں نمایاں کردار سے سراج الدین حقانی طالبان قیادت میں اہمیت اختیار کرتے گئے۔سراج الدین حقانی کے پکتیا خطے سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً سابقہ وزیرستان و کرم ایجنسیوں میں مراکز تھے جہاں انھیں پاکستانی طالبان و القاعدہ سمیت دیگر غیر ملکی جنگجوؤں کی افغانستان کے اندر لڑائی میں حمایت حاصل تھی۔سراج الدین حقانی نے 19 اکتوبر کو طالبان کے مارے جانے والے ارکان کے لواحقین کے ایک اجتماع سے خطاب میں دعویٰ کیا کہ وہ افغانستان میں ہونے والے خودکش حملوں کے بانی ہیں۔سال 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد سراج الدین حقانی کو افغان طالبان میں کئی اہم ذمہ داریاں ملیں۔ملا عمر کے جانشین اختر محمد منصور نے انھیں طالبان کا نائب سربراہ اور طالبان کے ملٹری کمیشن کا مسئول مقرر کیا۔بعد میں انھیں افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 20 صوبوں کے لیے طالبان کا مختارِ کْل بنایا گیا جہاں اْن کے فیصلے سے تمام تقرریاں اور جنگ کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔

 

Related Articles