رویت ہلال کے معاملے میں سائنٹفک طریقہ اپنانے کی ضرورت
: از: میر غضنفر علی امریکہ
ہر سال روئیت ہلال کے معاملے کو لے کر امت میں اضطراب کی سی کیفیت نظر آتی ہے۔کوئی مقامی رؤیت کو تسلیم کرتا ہے، کوئی سعودی رؤیت کو ترجیح دیتا ہے، کوئی عالمی روئیت کا حامی ہے۔ لیکن اس طریقہ کار میں ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ جسکی وجہ سے ایک افراتفری کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور ایک ہی ملک و شہر میں تین تین عدیں منائی جاتی ہی۔ چونکہ اس کا تعلق دین کے اہم رکن روزہ سے ہے,سو اس کی درست فہم ہم سب کے لئے ناگزیر ہے۔ دنیا چاند پر کبھی کے پہنچ بھی گئی،اور اب مریخ پر کمند دال رہی ہےاور ہم چاند رات کی تاریخ کے تعین میں ابھی تک چاند میں ہی اٹکے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال سے معذرت :حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ اُمّت رویت ہلال میں کھوگئیپچھلے زمانوں میں شمسی تاریخوں کا تعین کرنا اور حساب کتاب رکھنامشکل تھا اس لئے سبھی اقوام عام طور پر روز مرہ کے معاملات کے لئے قمری تاریخیں ہی استعمال کرتے تھے کیونکہ اس وقت اس میں آسانی تھی۔ چونکہ زراعت اور سفر کا دار و مدار موسموں پر ہوتاہے اور موسموں کا انحصار چاند پر نہیں بلکہ سورج کی گردش پرہے تو شمسی مہینوں کا بھی حساب رکھنا بھی ضروری تھا۔ پھرانسان جیسے جیسے حساب کتاب رکھنے کے قابل ہوتے گیا تو شمسی ماہ و سال وجود میں آتے گئے اور بتدریج شمسی تاریخوں کےقطعی تعین کا ایک نظام بھی وضع کر لیا گیا تا کہ روز مرہ کے معاملات کے ساتھ ساتھ موسموں کے تعین کے لئے بھی ایک ہی کیلینڈر استعمال ہوسکےجس میں آسانی ہو۔ اس لئیے ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے ایک متعین شمسی کیلنڈر وجود پزیر ہوا۔سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہےزمانے میں صرف موسم ہی سورج کی گردش کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ ہماری پانچوں نمازوں کے اوقات کار بھی سورج کی گردش کے عین مطابق ہیں۔ جب گھڑیاں وجود میں نہیں آئی تھیں تو پانچ نمازوں ، افطار وسحرکے أوقات کا تعین اندازے سے کرلیا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی گھڑیاں ایجاد ہوئیں تو سورج کی گردش کے ایک ایک لمحہ کا حساب کرنا آسان ہوگیا اور اسی اعتبار سے پانچ نمازوں اور سحر و إفطار کے وقت کا تعین بھی منٹوں کے حساب سے ہونے لگا۔ سحر کے وقت کا تعین کرنے کے لئیے اب کون باہر جاکر دیکھتا ہے کہ خیط الأسود سے خیط الابیض نمایاں ہے یا نہیں؟ اکثر اس حدیث شریف کا حوالہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ چاند کو دیکھنا ضروری رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ شروع کر دو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر ابر ہو تو اندازہ سے کام کرو ۔ ( یعنی تیس روزے پورے کر لو ) صحیح بخاری ظاہر ہے ،یقیناً ضروری تھا، وہ اس لئے کہ اس زمانے میں چاند کو دیکھ کر تاریخ کے تعین کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار موجودہی نہیں تھا۔ دیکھا جائے تو اس حدیث میں29 دن یا 30دن یعنی ایک دن کی گنجائش اور لچک بھی موجود ہے۔جو لوگ چاند کو دیکھو تو روزہ شروع کرو۔۔۔ والی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں ، پتہ نہیں وہ اس حدیث کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں :نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، ہم ایک بے پڑھی لکھی قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا ۔ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے ۔ آپ کی مراد ایک مرتبہ انتیس ( دنوں سے ) تھی اور ایک مرتبہ تیس سے ۔ ( آپ ﷺ نے دسوں انگلیوں سے تین بار بتلایا ) صحیح بخاری 1913 اس حدیث شریف سے تو یہ بات مزید واضع ہوجاتی ہے کہ یہ 29 اور 30 دن کا مسئلہ حساب کتاب نہ جاننے کی وجہ سے تھااور اب جبکہ حساب کتاب یقینی طور پر ہوسکتا ہے تو اللہ تعالی کے عطا کردہ اس علم سے فائیدہ اٹھانا چاہئیے۔ سورج اور چاند دونوں کا خالق ایک ہی ہے۔ دونوں کی افادیت اپنی جگہ مسلًم ہے ۔قرآن کریم میں یوم کا ذکر 365 بار آیا ہے۔ اور اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ چاند اور سورج حساب کے لئیے ہیں۔
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ﴿الرحمن: ٥﴾ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔
فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿الأنعام: ٩٦﴾ پردہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں۔قمری سال صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے۔ نبئ کریم صلعم کی بعثت سے پہلے بھی اہل عرب قمری سال ہی استعمال کرتے تھے۔ عیسائی ایسٹر قمری تاریخ کے حساب سے مناتے ہیں۔ چائنا والوں کے سال نو کی عید قمری تاریخ کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ ہندوؤں میں اماواسیہ اور پور نمی، شو راتری اور دیگر عیدیں قمری حساب سے ہی مناتے ہیں کیونکہ انکا انحصار چاند کی گردش پر ہے۔ لیکن وہاں ایسی کوئی بے یقینی اور افراتفری کا ماحول دکھائی نہیں دیتا کیونکہ انہوں نے ایک طریقہ کار کا تعین کرلیا ہے ۔ در اصل چاند رات کا تعین نہ یہ مذہبی مسئلہ ہے اور نہ ہی اس میں مذہبی علماء کا کوئی عمل دخل ہونا چاہیئے بلکہ یہ مسئلہ ہے علماءِ ماہر فلکیات کا ، یعنی سائینس دانوں کا ہے۔سورج کی طرح سے چاند کا بھی لمحہ بہ لمحہ حرکت کے سائنٹیفک اعداد و شمار (کیلکیولیشن) موجو ہے۔ ایک طرف (سورج) کے سائنٹیفک اعداد و شمار کا ہمیں نہ صرف اقرار ہے بلکہ باقاعدگی سے اس پر عمل پیرا ہیں اور دوسری طرف ( چاند) کے سائنٹیفک اعداد و شمار سے یکسر انکار سمجھ سے باہر ہے ۔ اس انکار کےدلیل میں اپنی تنگ نظری اور ناسمجھی کی وجہ سے قرآن اور احادیث کے غلط تاویلات ، سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیئے جاتے ہیں۔ کچھ تو محض اپنی ہٹ دھرمی اور اپنی اجارہ داری کے چکر میں انکاری ہیں تو کچھ لا علمی یا کم علمی کی وجہ سے انکاری ہیں ۔ نتیجتآ قوم بے یقینی ، افراتفری و پریشانی کا شکار ہے ۔جیسے شمسی کیلنڈر متعین ہے اسی طرح قمری کیلنڈر بھی متعین ہے۔اسلامی فقہ کونسل آف نارتھ امریک FCN، [ جس میں پائے کے مسلم سائنس دان، علماء و دانشور شامل ہیں]نے آج سے پندرہ بیس سال پہلے ہی ایک قمری کیلینڈر تیار کیا جس میں دنیا کے کس مقام پر اور کس دن ہر قمری مہینے کی پہلی تاریخ کب ہوگی وہ درج ہے اور آج سے دو تین سو سال بعد بھی رمضان کی عید بقر عید وغیرہ کب ہوگی پتہ کرسکتے ہیں۔ جو کہ رویت ہلال کمیٹی والوں کے إعلانات سے زیادہ یقینی طور پر درست accurate ہے۔اس کیلنڈر پر کچھ برسوں سے امریکہ اور کنیڈا اور دنیا کے بیشتر مساجد نے عمل بھی شروع کردیا ہے باقی سبھی لوگ بھی اگلے بیس پچیس سال میں مان لینگے، انشاء اللہ کیونکہ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نئی بات یا نئی ایجاد کو ہم پہلے بغیر سوچے سمجھے بیک جنبش قلم مستردکرتے ہیں۔پھر اس ایجاد یا کوئی مفید بات کو سمجھنے اور اسکو عام طور پر اختیار کرنے میں کم سے کم ایک سو سال لگتے ہیں مثال کے طور پر نماز پڑھانے کے لئے مائیک کا استعمال عام ہوتے ہوتےتقریباً 70 سے 80 سال لگ گئیے۔ بلکہ آجبھی بر صغیر کے بعض مساجد میں آج تک مائیک پر نماز نہیں پڑھائی جاتی۔ اگر کوئی درمیانی درجہ کا مسلۂ در پیش ہو تو پھر ہمیں اس کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں تقریباً پانچ سو سال بھی لگ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پرنٹنگ پریس ہے۔ ترکی کے پہلے والے مفتی اعظم نے تو کفر قرار دیکر پرنٹنگ پریس پر مکمل پابندی لگا دی تھی۔ 250 سال کے بعد بھی اس وقت کے مفتی اعظم نے بھی اس شرط پر اجازت دی کہ اس پر قرآن اور اسلامی لٹریچرنہیں چھاپا جائگا۔
ہمارے علماء کرام نے متحدہ طور پر مختلف ہیلے بہانوں سے قرآن اورا حادیث کا1200 سال تک دوسرے زبانوں میں ترجمہ نہیں ہونے نہیں دیا تاکہ مسلمان چھوٹے سے چھوٹےمسئلے کے لئیے بھی انکے مرہون منت رہیں اور یہ مسلمانوں کو فروعی مسائل میں الجھاتے رہے تاکہ انکی اجارہ داری نہ صرف چلتی رہے بلکہ قائم و دائم رہے۔اور جدید علوم کی باقاعدہ حوصلہ شکنی کرتے رہے جسکی وجہ سے مسلمان علمی، اخلاقی، تحقیقی ، ہر لحاظ سے زوال پزیر ہیں۔ آج بھی بہت سے اسلامی مسائل کے بارے میں ہمارے بیشتر علما کرام کا یہی رویہ ہے جسکی وجہ سے اسلام جیسے آسان اور نہایت ہی قابل عمل مذہب کو جو کہ بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل، ساری انسانیت کے فلاح و بہبود گی اور خدمت خلق کا مذہب ہے اسکو اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ مسلمان بھی اسلام کی اصل روح سے دور ہوکر گمراہی کا شکار ہیں الا ما شاءاللہ، بلکہ نئی نسل مذہب سے دورہو رہی ہے۔اس تمام تر تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ روئیت ہلال کی افرا تفری و اضطربی کیفیت سے نجاءت پانے کا واحد حل یہی ہے ، کہ اسلامی فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ FCNAکے مرتب کردہ متعین کیلنڈر Fixed Calendar کو اختیار کیا جائے جس کے مطابق ہجری مہینوں کی تاریخوں کا بہت پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ اب امریکہ اور کینیڈا کی اکژیت اسی کیلنڈر کے مطابق عیدین کا اہتمام کرتے ہیں۔
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں