رومن ابرامووچ: تین سال کی عمر میں یتیم ہونے سے ارب پتی بننے تک کا سفر

ماسکو/لندن،مارچ۔روسی ارب پتی رومن ابرامووچ روس اور یوکرین کے مابین استنبول میں جاری امن مذاکرات میں شریک ہیں جہاں انھیں ترک صدر طیب اردوغان سے بات کرتے بھی دیکھا گیا۔اس سے پہلے ایسی اطلاعات آئی تھیں کہ رواں ماہ کے آغاز میں بیلاروس اور یوکرین کی سرحد پر یوکرین روس امن مذاکرات میں شرکت کے بعد واپس آنے پر رومن ابرامووچ میں مبینہ طور پر زہر کے اثرات کی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں۔رومن ابرامووچ کے قریبی ذرائع نے بتایا تھا کہ زہر کے اثرات سے ان کی آنکھیں سوج گئی تھیں اور ان کی جلد جھڑنے لگی تھی لیکن اب وہ صحتیاب ہو چکے ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ روسی ارب پتی رومن ابرامووچ کئی ہفتوں سے یوکرین اور ماسکو کے درمیان مصالحت کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔روس نے رومن ابرامووچ کو زہر دینے کی اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے۔ خبروںکے مطابق ان الزامات کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ علامات زہر کی وجہ سے نہیں بلکہ ماحولیاتی وجوہات کی وجہ سے تھیں۔اس کے بعد یوکرین کے صدارتی دفتر کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ابرامووچ سے بات تو نہیں کی، لیکن یوکرین کے وفد کے ارکان ٹھیک ہیں، جبکہ ان میں سے ایک اہلکار نے کہا کہ یہ کہانی جھوٹی ہے۔رومن ابرامووچ کو روسی صدر پوتن کے امیرترین دوستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔وہ تین سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے لیکن آج دنیا کے امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اب روس کے یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ان کے روابط نے ان کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔روسی ارب پتی نے سنہ 2003 میں جب چیلسی فٹ بال کلب خریدا تھا تو اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ لوگ تین یا چار دن تک مجھ پر توجہ مرکوز رکھیں گے اور پھر بات آئی گئی ہو جائے گی۔۔۔ وہ بھول جائیں گے کہ میں کون ہوں، اور مجھے یہ بات پسند ہے۔ پچھلے چند ہفتوں کے واقعات کے پیش نظر اب ان کا نام میڈیا میں نہ آنے کے بہت ہی کم امکان ہیں۔ ابرامووچ کے معاملات کی زیادہ سے زیادہ چھان بین کے متعلق کئی سالوں سے کیے جانے والے مطالبات کے بعد حکومت برطانیہ نے برطانیہ میں ان کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں جس میں ان کے گھر، آرٹ ورکس اور چیلسی ایف سی بھی شامل ہے۔ ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں۔حکومت برطانیہ نے ان پر یوکرین پر حملے میں صدر پوتن کے ساتھ شریک ہونے کا الزام لگایا ہے۔برطانوی فٹ بال پر ایک عرصے تک راج کرنے لیکن اس عمل عمل میں فٹبال کے شائقین کو بڑء حد تک تقسیم رکھنے والے شخص کے زوال کے عمل پر بعض افراد خوش بھی ہوں گے۔ لیکن انھوں نے پہلے بھی بڑے چیلنجز پر قابو پا کر فتح حاصل کی ہے بطور خاص اپنی ابتدائی زندگی میں۔رومن آرکادیوچ ابرامووچ سنہ 1966 میں یوکرین کی سرحد سے چند سو میل کے فاصلے پر جنوب مغربی روس کے شہر سراتوف میں پیدا ہوئے۔ جب وہ ایک سال کے تھے تو ان کی والدہ ارینا کی خون میں زہر پھیلنے سے موت ہوگئی اور دو سال بعد جب وہ تین سال کے ہوئے تو ان کے والد کی ایک تعمیراتی کاموں میں استمعال ہونے والی کرین سے حادثے میں موت ہوگئی۔اس کے بعد ابرامووچ کی ذمہ داری ان کے رشتہ داروں پر آ گئی اور شمال مغربی روس کے علاقے کومی میں ان کی پرورش ہوئی جہاں پیسہ کم تھا اور سردی زیادہ۔انھوں نے ایک بار گارڈین کو دیے اپنے ایک غیر معمولی انٹرویو میں کہا تھا سچ بتاؤں تو میں اپنے بچپن کو برا نہیں کہہ سکتا۔۔۔ کیونکہ اپنے بچپن میں آپ چیزوں کا موازنہ نہیں کرتے کہ کون گاجر کھاتا ہے اور کون کینڈی کھاتا ہے، دونوں کا ذائقہ اچھا ہے۔ بچپن میں آپ ان کا فرق نہیں بتا سکتے۔ نوجوان ابرامووچ نے 16 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا اور مکینک کے طور پر کام کرنے لگے اور ماسکو میں پلاسٹک کے کھلونے فروخت کرنے سے پہلے انھوں نے ریڈ آرمی میں خدمات انجام دیں۔سوویت رہنما میخائل گورباچوف کے دور میں جب کاروباروں کے لیے زیادہ آزادی اور سہولیات متعارف کرائی گئیں تو وہ پرفیوم اور ڈیوڈرنٹ کے کاروبار کی جانب راغب ہوئے اور دولت کمائی۔سوویت یونین کے ٹوٹنے، اور اس کے ساتھ معدنی اثاثوں کی ریاستی کمان نے ابرامووچ کو مزید مواقع فراہم کیے، اور اپنی عمر کے 20 کے پیٹے میں ان پر خوش قسمتی کے مزید دروازے کھلے۔انھوں نے سنہ 1995 میں دھاندلی پر مبنی نیلامی میں روسی حکومت سے تیل کی ایک کمپنی سبنیفٹ کو تقریباً 25 کروڑ ڈالر میں حاصل کر لی۔ اور پھر انھوں نے سنہ 2005 میں اسے حکومت کو 13 ارب ڈالر میں واپس فروخت کردیا۔ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اس الزام کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ انھوں نے جرائم کے ذریعے بہت زیادہ دولت اکٹھی کی ہے۔ تاہم سنہ 2012 میں انھوں نے برطانیہ کی ایک عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے سبنیفٹ ڈیل کو آگے بڑھانے میں مدد کے لیے ادائیگی کی تھی۔وہ سنہ 1990 کی دہائی میں ہونے والی ایلومینیم جنگوں میں شامل ہو گئے جس میں اولیگارک (وہ لوگ جنھوں نے سوویت روس کے ٹوٹنے کے بعد بڑی دولت اور وسیع سیاسی طاقت حاصل کی تھی) اس بڑی صنعت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آمنے سامنے تھے۔ابرامووچ نے سنہ 2011 میں کہا تھا کہ اس دوران ہر تین دن میں کسی نہ کسی کا قتل ہو رہا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اپنی حفاظت اور اس میں شامل خطرے کے پیش نظر وہ اس میں ایک ایسے شریک تھے جو ہچکچا رہا ہو۔لیکن ابرامووچ نے اس افراتفری کے دوران لاکھوں پاؤنڈز جمع کر کے اپنے پختہ ارادی کا ثبوت دیا۔وہ صدر بورس یلسن کے حلیف اور سوویت یونین کے بعد ماسکو کے سیاسی منظر نامے کے ایک کھلاڑی بن گئے، یہاں تک کہ کچھ عرصے کے لیے کریملن میں ان کا ایک اپارٹمنٹ بھی رہا۔جب یلسن سنہ 1999 میں مستعفی ہوئے تو ابرامووچ مبینہ طور پر ان لوگوں میں شامل تھے جو وزیر اعظم اور سابق کے جی بی جاسوس ولادیمیر پوتن کے حامیوں میں شامل تھے اور پوتن کی یلسن کے جانشین کے طور پر حمایت کر رہے تھے۔جب پوتن نے خود کو مستحکم کرنا شروع کیا تو اولیگارکز پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی۔ جو پوتن سے وفاداری ظاہر کرنے میں ناکام رہے ان میں سے کچھ کو جیل بھیج دیا گیا اور دوسروں کو جلاوطن کر دیا گیا۔لیکن ابرامووچ کو بری قسمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سنہ 2000 میں وہ روس کے شمال مشرقی سرے پر موجود چوکوتکا کے پسماندہ علاقے کے گورنر کے طور پر منتخب ہوئے۔ انھوں نے سماجی خدمات میں اپنا پیسہ لگانے کے بعد مقبولیت حاصل کی لیکن پھر سنہ 2008 میں استعفیٰ دے دیا۔لیکن اس دوران بھی وہ ہر وقت اپنے کاروباری مفادات کو بڑھاتے رہے اور پینٹنگز، مکانات، کاریں خریدنے میں اپنا پیسہ لگاتے رہے۔عام طور پر خاموش طبیعت اور شرمیلے شخص کے طور پر مشہور ابرامووچ نے سنہ 2003 میں ایک غیر معمولی کام سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ انھوں نے 14 کروڑ پاؤنڈ کے معاہدے میں مغربی لندن کے سب سے بڑے کلب چیلسی کو خرید کر فٹبال کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔انھوں نے فنانشل ٹائمز کو بتایا تھا زندگی کا میرا پورا فلسفہ پیشہ ور ٹیموں کو آگے لانا ہے۔ چوکوتکا میں میری پیشہ ور ٹیمیں ہیں اور میں یہاں بھی ایسا ہی کروں گا۔ جوزے مورینیو اور دیگر کی نگرانی میں ابرامووچ کی دولت نے چیلسی کو پانچ پریمیئر لیگز، دو چیمپئنز لیگز اور پانچ ایف اے کپ حاصل کرنے میں مدد کی۔حالیہ برسوں میں لندن اولیگارکز کی دولت سے بھر گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ابرامووچ کی اپنی جائیداد کی فہرست میں مغربی لندن کے کنسنگٹن پیلس گارڈنز میں 15 بیڈ روم والا گھر شامل ہے، جس کی مالیت مبینہ طور پر 15 کروڑ پاؤنڈ سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ چیلسی میں ایک فلیٹ، کولاراڈو میں ایک فارم اور اور فرنچ رویرا میں ایک گھر بھی ہے۔ان کی یاٹ یعنی پر تعیش کشتیاں سولارس اور ایکلپس دنیا کی ایسی سب سے بڑی کشتیوں میں شامل ہیں۔ ابرامووچ کی تین بار طلاق ہو چکی ہے اور ان کے پاس ذاتی طیارہ بھی ہے۔سنہ 2006 میں جب گارڈین نے ان سے پوچھا کہ پیسہ کسی شخص کے لیے کیا کر سکتا ہے تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: یہ آپ کے لیے خوشی نہیں خرید سکتا۔ البتہ، کچھ آزادی ضرور خرید سکتا ہے۔ ان کے پاس یقیناً بہت پیسہ ہے۔ مالیاتی میڈیا کے بڑے ادارے بلومبرگ نے ابراموچ کی دولت کا تخمینہ 13.7 ارب امریکی ڈالر لگایا ہے، جس کے مطابق وہ دنیا کے 128ویں امیر ترین شخص ہیں۔ اس ادارے کی حریف فوربس نے ان کی دولت کا تخمینہ سوا بارہ ارب امریکی ڈالر سے زیادہ لگایا ہے اور اس کے مطابق وہ دنیا کے 142 ویں امیر ترین شخص ہیں۔تاہم ان کے متعلق جس بارے میں زیادہ سوال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انھیں صدر پوتن سے کتنی آزادی حاصل ہے۔گذشتہ سال ابرامووچ نے پبلشنگ ہاؤس ہارپر کولنز پر کیتھرین بیلٹن کی ایک کتاب پوتنز پیپل یعنی پوتن کے لوگ کے لیے ہتک عزت کا مقدمہ کیا تھا۔ اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روسی صدر نے انھیں چیلسی خریدنے کا حکم دیا تھا۔بہر حال دونوں فریقوں نے عدالت سے باہر تصفیہ کر لیا اور کتاب کے ناشر نے کچھ وضاحتیں کرنے پر اتفاق کر لیا۔لیکن جب روسی افواج نے یوکرین کے ساتھ سرحد پر جمع ہونا شروع کیا اور اور پھر حملہ کیا تو صدر پوتن کے ساتھ ابرامووچ کی وابستگیوں نے انھیں نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔جب ابرامووچ اور چھ دیگر اولیگارکز کے برطانیہ میں اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا گیا تو خارجہ سکریٹری لز ٹرس نے کہا پوتن کے ساتھ ان کے قریبی روابط کے باعث، وہ اس کی جارحیت میں شریک ہیں۔ یوکرین کے عوام کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہیں۔ ابرامووچ نے پابندیاں عائد ہونے سے آٹھ دن پہلے چیلسی فٹبال کلب کو فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ مداحوں نے ابرامووچ کے نام کا نعرہ لگانا جاری رکھا ہوا ہے لیکن بہت سے سیاست دان ان کے اثاثوں کو نہ صرف منجمد کرنے بلکہ انھیں ضبط کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ابرامووچ نے چیلسی کے حامیوں سے کہا ہے امید کرتا ہوں کہ میں آخری بار سٹامفورڈ برج آؤں گا اور آپ سب کو ذاتی طور پر الوداع کہوں گا۔ لیکن کچھ عرصے کے لیے مغربی لندن میں ان کی واپسی کا امکان نہیں ہے۔

 

Related Articles