روس کے ساتھ بات چیت دشوار امر ہے : زیلنسکی
ماریوپول،مارچ۔یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی نے باور کرایا ہے کہ روس کے ساتھ بات چیت دشوار اور کبھی ٹکراؤ والی بھی ہوتی ہے۔منگل کی شام وڈیو اپنے وڈیو بیان میں زیلنسکی کا کہنا تھا کہ "ہم ماسکو کی حوصلہ افزائی جاری رکھیں گے تا کہ وہ امن کی طرف حرکت میں آئے”۔یوکرینی صدر کے مطابق ساحلی شہر ماریوپول میں ایک لاکھ افراد غیر انسانی حالت میں رہ رہے ہیں ، ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء اور دوائیں نہیں ہیں۔اس سے قبل روس میں کرملن ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فوجی آپریشن پر روک لگانے کے مقصد سے کی جانے والی بات چیت مطلوبہ سطح کی نہیں ہے۔ کرملن ہاؤس کے ترجمان دمتری بیسکوف نے آج بتایا کہ "بات چیت چل رہی ہے مگر ہم مذاکرات کو زیادہ سرگرم اور اس سے زیادہ سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں”۔واضح رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان سیاسی مذاکرات کا آغاز روسی فوجی آپریشن کے چار روز بعد 28 فروری کو ہوا تھا۔ اب تک بات چیت کے چار ادوار منعقد ہو چکے ہیں۔ پہلا دور بیلا روس کی سرحد پر ، دوسرا اور تیسرا دور پولینڈ کی سرحد پر اور چوتھا دور وڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوا۔ ابھی تک جنگ کے روکے جانے کے حوالے سے کوئی مؤثر اتفا رائے سامنے نہیں آ سکا۔ماسکو اپنے پڑوسی ملک یوکرین کو غیر مسلح کرنا چاہتا ہے ، جزیرہ نما قرم کے روسی اراضی میں شمولیت کا تسلیم کیا جانا چاہتا ہے اور ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ یوکرین نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے خیال سے دست بردار ہو جائے۔یوکرین نے نیٹو اتحاد سے متعلق بعض تصفیوں کو قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم اس نے مذکورہ امر کو ریفرینڈم یا عوامی رائے شماری کے ساتھ مربوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اسی طرح کیف حکومت نے اپنی سرزمین سے تمام روسی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔