روس کا اینٹی سیٹلائٹ میزائل تجربہ، جس نے خلا بازوں کو خطرے میں ڈال دیا
ماسکو/واشنگٹن،نومبر.امریکی حکام نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے سیٹلائٹ کو مار گرانے والے میزائیل کے تجربے سے زمین کے نچلے مدار میں ملبہ جمع ہو گیا ہے جس سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور اس کے باعث کئی برسوں تک بعض خلائی سرگرمیوں کو رکاوٹ کاسامنا رہے گا۔امریکہ کے خلائی ادارے، ناسا کے مطابق اس روسی تجربے کے بعد خلائی اسٹیشن میں موجود چار امریکییوں، دو روسیوں اور ایک جرمن خلاباز پر مشتمل ٹیم کو دو گھنٹے تک ازراہ احتیاط سپیس شپ کیپسول میں پناہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر تیزی سے راستہ نکالا جا سکے۔خیال رہے کہ تحقیقی لیب زمین سے 250 میل کی بلند سطح پر مدار میں چکر لگا رہی ہے اور وہ اس ملبے کے قریب یا اس کے پاس سے ہر ڈیڑھ گھنٹے بعد گزرتی ہے۔ لیکن لیب کے تیسری بار اس ملبے کے پاس سے گزرنے کے بعد ناسا کے سائنسدانوں نے نیتجہ نکالا کہ خلا بازوں کا اسٹیشن کے اندرونی حصے میں واپس جانا محفوظ ہوگا۔ناسا کے مطابق خلائی عملے کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے متعدد ماڈیولز کے داخلی راستوں کو سیل کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ خلائی ایجنسی مدار میں موجود عملے کی حفاظت کے لیے آنے والے دنوں میں اس تجربے سے پیدا ہونے والے ملبے کو مانیٹر کرتی رہے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے تجربات جو خلا میں سیاروں کو تباہ کرتے ہیں ٹکڑوں کے بادل بنا دیتے ہیں جن سے خلا میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، کیونکہ یہ ٹکڑے خلا میں دوسری اشیا سے ٹکرا سکتے ہیں اور اس طرح زمین کے مدار میں ردعمل کا ایک سلسلہ چل نکلنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔خبروں کے مطابق روس کی فوج اور وزارت دفاع اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لیے فوری طور پر دستیاب نہیں تھے۔ البتہ روس کی خلائی ایجنسی راس کاسماس نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر ایک پوسٹ میں اس تجربے سے پیدا ہونے والے خطرے کو کم تر قرار دیا۔روسی خلائی ایجنسی نے لکھا کہ اس شے کا مدار جس کی وجہ سے خلائی عملے کو سٹینڈرڈ پروسیجرز کے تحت خلائی جہاز میں بھیجا گیا اب بین الاقوامی سپیس شپ سے دور جا چکا ہے۔ راس کاسموس نے پیغام میں لکھا کہ حالات اب گرین زون میں یعنی محفوظ ہیں۔ادھر امریکی سپیس کمان نے ایک بیان میں کہا کہ روس کی جانب سے اپنے سیارے کی طرف چلائے گئے سیدھے بلند ہوتے میزائل سے ملبے کے پندرہ سو مدارتی ٹکڑے پیدا ہوئے جن کے راستے کو دیکھا جا سکتا ہے۔علاوہ ازیں یہ تجربہ غالباً سینکٹروں ہزاروں چھوٹے ٹکڑے پیدا کرے گا۔امریکی فوج کے جرنل جیمز ڈکنسن نے کہا کہ روس نے ارادتاً اس تجربے سے تمام قوموں کے خلائی مقامات کی سلامتی، حفاظت، استحکام اور دیرپا معیاد کی پرواہ نہ کرنے کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ اس میزائل کا ملبہ ہماری خلا میں آئندہ کئی برسوں تک خطرہ بنا رہے گا جس سے نہ صرف خلائی مشن اور سیاروں کو خطرات درپیش ہوں گے، بلکہ اس سے پیدا ہونے والے ملبے سے بچنے کے لیے کئی بار تدبیر کرنا ہو گی۔اس تجربے پر امریکہ کا ردعمل بیان کرتے ہوئے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اس کی مزمت کی اور اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ اس تجربے نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ خلا میں نارمل رویہ اپنانے کے لیے معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ناسا کے سربراہ نیلسن کہتے ہیں کہ یہ بات سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی کہ روس اس تجربے کے ذریعے نہ صرف امریکی، دوسرے بین الاقوامی ساتھی خلابازوں اور اپنے ہی خلابازوں کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔انہوں نے کہا کہ ملبے سے چین کے زیر تعمیر اسپیس اسٹیشن اور اس پر تین ممبر کے عملے کو بھی خطرہ ہے۔یاد رہے کہ روس کی طرف سے یہ واقعہ امریکی اور یورپی خلائی اداروں کے چار خلابازوں کے مدار میں چھہ ماہ کے لیے سائنس مشن پر پہنچے کے محض چار دن بعد رونما ہوا ہے۔خلائی اسٹیشن، جو کہ ایک امریکی فٹ بال کے میدان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا ہوا ہے، نومبر 2000 سے مسلسل کام کر رہا ہے۔اسے روسی ایجنسی سمیت 15 ممالک کی پانچ خلائی ایجنسیوں کی بین الاقوامی شراکت داری سے چلایا جاتا ہے۔روس خلا میں اینٹی سیٹلائٹ ٹیسٹ کرنے والا پہلا ملک نہیں ہے۔ امریکہ نے 1959 میں پہلی بار ایسا کیا تھا جب سیٹلائٹ نایاب اور نئے تھے۔اپریل میں روس نے اینٹی سیٹلائٹ میزائل کا ایک اور تجربہ کیا کیونکہ حکام نے کہا ہے کہ خلا تیزی سے جنگ کے لیے ایک اہم جگہ بن جائے گی۔اس سے قبل 2019 میں، بھارت نے زمین سے خلا میں مار کرنے والے میزائل کے ساتھ زمین کے نچلے مدار میں اپنا ایک سیٹلائٹ مار گرایا تھا۔ان ٹیسٹوں نے ٹیلی کمیونیکیشن اور موسم کی پیشن گوئی سے لے کر بینکنگ اور جی پی ایس کی خدمات اور تجارتی سرگرمیوں کے طویل المعیاد ہونے کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے ہیں۔