دو ٹرلین پونڈز تلے دبی برطانوی معیشت
تنویرزمان خان
برطانیہ میں کووڈ 19 کے بعد سے اب تک معیشت کی عجیب صورتحال بنتی جارہی ہے جس کی وجہ سے محض کووڈ نہیں بلکہ بریگزٹ بھی ہے۔ گورنمنٹ کووڈ کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ دراصل جیسا کہ توقع کی جارہی تھی کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کیمعیشت پر بہت منفی اثرات آئیں گے۔ کبھی کبھی حکومت کی طرف سے ایسے اعدادوشمار آتے ہیں کہ معیشت بہتر ہوتی نظر آنے لگتی ہے تو کبھی خوفناک اعداد وشمار سے ڈرایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ کے وزیرخزانہ رشی سوناک نے کنزرویٹو پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں بتایا کہ برطانیہ کی معیشت کووڈ کے دوران سے اب تک 2 ٹریلین پونڈز سے زائد کیخسارے میں جاچکی ہے اور اسے مختلف ٹیکس عائد کرکے پورا کیا جائے گا، جس میں یک مشت یعنی ایک ہی بڑے بل کے ذریعیپوراکرنے کی بھی تجویز ہے۔ صرف اس خسارے کو لیتے ہوئے اس وقت برطانیہ کا آج پیدا ہونے والے سے لے کر آج تک زندہ موجود ہر شہری تقریبا33 ہزارپونڈسے زیادہ قرضے میں آچکا ہے۔ اس طرح اگر ایک پانچ افراد کا خاندان ہو تو وہ پونے دو لاکھ پونڈز کا مقروض ہوچکا ہے۔ اس طرح تیزی سے اوپر جاتی گیس اور پیٹرول کی قیمتیں سونے پے سہاگے کا کام کررہی ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا ملک روس ہے جس کی گیس سپلائی سے یورپ اور برطانیہ چلتے ہیں۔ اس وقت پچھلے ڈیڑھ سال میں برطانیہ میں گیس کی قیمتیں 250 فیصد زیادہ ہوگئی ہیں۔ یورپ، روس پر الزام عائد کررہا ہے کہ روس گیس کی فراہمی بند کرکے گیس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے جبکہ روس کے صدر پیوٹن نے ایسے کی الزام کی صحت سے انکار کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ دراصل روس اپنی متنازع پائپ لائن بچھانے کو ای یو سے منظور کرانا چاہتا ہے جونہی یورپ نے اس کی منظوری دی گیس سپلائی فورا بحال ہوجائے گی جبکہ پیڑول کے ساتھ ایسا نہیں ہے، یہی وہ ایشو ہے جس پر برطانیہ کو ای یو سے نکلنے کے نہ صرف طعنے دیئے جارہے ہیں بلکہ ڈرائیوروں کی عدم دستیابی کو بریگزٹ پر ہی تھوپا جارہا ہے۔ تیل کی قیمتیں روزانہ کے حساب سے اوپر جارہی ہیں جس کا ہر چیز اور سپلائی پر اثر پڑ رہا ہے۔ اب عام آدمی کسی اسٹور میں جاتا ہے تو وہ اب میںاور قبل از کووڈ یا قبل از بریگزٹ میں بہت فرق محسوس کرنے لگا ہے۔ حالانکہ برطانوی حکومت اپنے خلاف بڑھتے رائے عامہ کے رد عمل کو روکنے کے لئے ایسی تجاویز دیتے رہتے ہیں اوروعدے کرتے ریتے ہیں کہ ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ مثلا معاشی امور کی سیلیکٹ کمیٹی نے تجویز مرتب کی کہ اس سال انکم ٹیکس، نیشنل انشورنس اور VATمیں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ پیٹرول کے بحران پر کئی ناقد اسے حکومت کا جان بوجھ کے کیا جانے والا عمل کہتے ہیں تاکہ بعد میں تیل کی قیمتوں میں اضافے پر لوگ نہ بولیں۔ یاد رہے پیٹرول حکومت کا ریونیو اکٹھا کرنے کا فوری اور بہت موثر طریقہ ہے۔ البتہ کنسٹرکشن اور ہاو?سنگ مارکیٹ میں خاص کساد بازاری دیکھنے کو نہیں ملی۔ بلکہ پراپرٹی مارکیٹ گزشتہ دو برسوں میں مسلسل مضبوطی کی طرف گئی جس کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ حکومت نے کاروبار کو سنبھا لنے کیلئے کووڈ کے دوران جو کم ترین سطح پر فکس قرضہ جات دیئے۔لوگوں نے وہ رقوم پراپراٹی کی خریداری کیلئے استعمال کیں۔ اس طرح موٹر گاڑیوں کی صنعت بھی گزشتہ دو برسوں میں بہت اوپر گئی۔ برطانیہ میں استعمال شدہ کاروں کی مارکیٹ اوپر چلی گئی۔ لوگوں نے حکومت کی طرف سے ملنے والی رقوم کو گاڑیوں کی خرید وفروخت میں استعمال کیا۔ یو کے کاریونیواینڈ کسٹمز صرف ٹیکسوں کی مد میں 556 بلین پونڈزاکھٹے کرنا ہے۔ یو کے میں دس ہزار سے لیکر اوپر جانے والی آمدنی میں مختلف بریکٹس میں 12 فیصد سے لیکر 45 فیصد تک ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس کا سوئیڈن جیسے ممالک سے موازنہ کریں وہاں ٹیکس کی شرح 57 فیصد ہے لیکن وہاں عوام کی صحت، تعلیم، تفریح اور سوشل کیئر پر یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوئیڈن کو دنیا کا خو شحال ترین ملک بھی کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں 25 فیصد ٹیکس صرف ٹاپ کے ایک فیصد امراء سے لیا جاتا ہے جبکہ 90 فیصد ٹیکس اوپر کی آمدنی والے 50 فیصد لوگوں سے لیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا میں مناکو ایک ایسا ملک ہے جہاں کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر مناکو میں کوئی چھ ماہ سے زائد رہ جائے تو اسے مستقل رہائشی تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مناکو دنیا کی سب سے بڑی ٹیکس ہیون ہے۔ یوں تو برطانیہ میں بھی کئی ایسے جزیرے ہیںجہاں دولت کی آمد و رفت پر کوئی پوچھ نہیںہوتی۔ اس سب کچھ کے باوجود اس وقت برطانیہ کی معیشت کافی مشکلات میں مبتلا ہے جس سے عام آدمی متاثر ہورہا ہے لیکن کیونکہ یہاں معیشت کیلئے مضبوط بنیادی ڈھانچہ، ادارے اور مالیاتی سہولتیں موجود ہیں اس لئے خیال کیا جارہا ہے کہ یہاں کی معیشت بہت جلد بحران پر قابو پالے گی۔