حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ”عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا“
ڈاکٹر ساجد خاکوانیابوعبداللہ حضرت بلالؓ حبشی، افریقی نسل کے اولین مسلمانوں میں سے ہیں جو محسن انسانیتﷺ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب نبیﷺمیں ان کاشمار ہوا۔ آپ کے والدکانام ”رباح“اور والدہ محترمہ ”حمامہ“تھیں۔ ان کے والدین بنیادی طورپر افریقہ کے خطے حبشہ جسے آج کل ”ایتھوپیا“کا ملک کہاجاتاہے وہاں کے رہنے والے تھے۔ حضرت بلال کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی، امت مسلمہ میں ”موذن نبوی“ان کی اول و آخر شناخت ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے خریدکرآزادکیااور پھر ساری عمرجوار نبویﷺمیں بسر کی۔ حضرت بلال ؓکو محسن انسانیت ﷺکااس قدرقرب میسرآیاکہ جملہ ضروریات نبویﷺحضرت بلال ؓکی ہی ذمہ داری تھی۔ آپ کا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتاہے، محسن انسانیت ﷺنے حضرت بلال کواولین موذن اسلام بنایا، انہیں آذان سکھائی، الفاظ و حروف کی صحیح ادائگی کا طریقہ سمجھایااورپھرانہیں ”سیدالموذنین“کالقب بھی مرحمت فرمایا۔
قریش کاایک نامور سردارامیہ بن خلف اسلام کا بدترین دشمن تھا، اس کے غلاموں میں سے حضرت بلال بن رباح تھے۔ روایات کے مطابق آپﷺنے رات کے وقت اونچی آوازسے رونے کی آوازسنی، دیکھاتوایک غلام چکی پیس رہاتھا اور ساتھ ہی ساتھ دردو کرب سے چلا رہاتھا۔ آپﷺ کے استفسارپراس نے بتایاکہ وہ سخت بخارمیں مبتلاہے لیکن اگروہ سوگیااوریہ دانے پسنے سے رہ گئے تواس کاآقا کوڑوں سے پٹائی کرے گا۔ ساتھ ہی اس نے شکوہ کیاکہ لوگ فقط پوچھ کر چلے جاتے ہیں اوربس۔ آپﷺ گھرسے اس کے لیے گرم دودھ کا پیالہ لائے اسے پلایااورسلادیا اورساری رات محسن انسانیتﷺاس کی جگہ چکی پیستے رہے۔ گیارہ راتوں تک آپﷺ نے اس کی جگہ چکی پیسی، تب اس غلام نے پوچھاکہ اے بھلے مانس توکون ہے اورمیری چکی کیوں پیستاہے؟؟؟آپﷺنے جب اسلام کی تعلیمات سے آگاہی فراہم کی اوروہ تفصیلی ملاقات نبوی سے بہرہ مند ہوئے تودولت ایمان سے قلب مبارک منور ہو گیاتاہم ایک مختصر مدت تک اپنے ایمان کو پردہ اخفا میں رکھا، لیکن آخر کب تک؟؟نور ایمان کی چندھیائی ہوئی روشنی نے ان کے آقاامیہ بن خلف کی آنکھوں کو اندھاکردیااور مصائب و آلام اور ابتلاء و آزمائش کاایک پہاڑ ان پر ٹوٹ گرا۔ صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیادپر ان کی میزبان تھی، عشق نبی ﷺسے بھرپورسینے پر بھاری بھرکم پتھرکاوزن اس آزمائش کی بھٹی میں حضرت بلالؓکو کندن بناتاتھااور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد، احد“کے سبق کو پختہ ترکرتی چلی جاتی تھی۔ کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے، کبھی امیہ بن خلف اور ابو جہل اور پھرکوئی اور لیکن حضرت بلالؓکی پشت سے دروں کی آشنائی دم توڑنے والی نہ تھی، خون اور پسینہ باہم اختلاط سے جذب ریگزارہوتے گئے یہاں تک کہ رحمۃ اللعالمین ﷺتک کسی مہربان نے داستان عزم و ہمت وصبرواسقامت روایت کر ڈالی۔ محسن انسانیت ﷺنے حضرت ابوبکرصدیقؓکوروانہ کیا، انہوں نے امیہ بن خلف کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی اورپھرایک مشرک حبشی لیکن صحت مند غلام کے عوض حضرت بلال کو خریدکرآزادکردیا۔
مدنی زندگی کے آغازمیں ہی جب ایک موذن کی ضرورت پیش آئی تو محسن انسانیت ﷺکی نگاہ انتخاب سیاہ رنگت کی حامل اس ہستی پر پڑی جس کے چہرے سے پھوٹنے والی حب نبویﷺ کی کرنوں سے آفتاب بھی ماندپڑجاتاتھا۔ حضرت بلال فجرکی آذان سے پہلے ہی مسجد نبوی کے پڑوسی مکان، جوبنی نجارکی ایک خاتون کی ملکیت تھا، اس کی چھت پر بیٹھ جاتے اور وقت کے آغازپر آذان دیتے، جس کے بعد سب مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے تھے۔ حضرت بلالؓ کاسارادن محسن انسانیت ﷺکے ساتھ ہی گزرتاتھا، خاص طور پر جب مسجدقباجاناہوتاتووہاں بھی حضرت بلالؓہی آذان دیتے جس سے قباکے مکینوں کو محسن انسانیت ﷺکی آمدکی اطلاع ہو جاتی تھی۔ قربت نبویﷺکے فیض نے حضرت بلالؓکو خازن نبویﷺ بھی بنادیاتھاچنانچہ جب کبھی کوئی سائل دست سوال درازکرتاتواسکو موذن اسلام کی طرف بھیج دیاجاتااور حضرت بلال محسن انسانیت ﷺکے ایماپرحسب ضرورت و حسب توفیق سائل کی معاونت فرمادیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے حضرت بلالؓکے تلفظ پر اعتراض کیاکہ وہ ”شین“کو”سین“کہ کراداکرتے ہیں لیکن ان کااعتراض بارگاہ رسالت ماب سے مسترد کردیاگیا۔ ایک بار محسن انسانیت ﷺنے پوچھا”بلال ایساکیاعمل کرتے ہوکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے؟؟“حضرت بلالؓ نے جواب دیاکہ جب بھی وضوکرتاہوں دو رکعت تحیۃ الوضو کے ضرورپڑھ لیتاہوں۔ ہجرت کے بعد حضرت بلال نے رفاقت نبویﷺ کا حق اداکیااورہر غزوہ میں شامل رہے خاص طورپرغزوہ بدر میں اپنے سابق آقاامیہ بن خلف کوقتل کیا۔ درباررسالتماب ﷺمیں اس سے بڑھ کر اور کیاپزیرائی ہو سکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر کباراصحاب رسول ﷺاورسرداران قریش کے درمیان سے آپ کو ہی حکم آذان ملااور آپ، حضرت بلال، نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کرآذان دی جواس شہراور اس گھرمیں طلوع اسلام کے بعد پہلی آذان ہی نہ تھی بلکہ اعلان فتح تھا۔ ایک پسے ہوئے طبقے کے فرد کی محض تقوی کی بنیادپراس قدرعزت افزائی صرف دین اسلام کا ہی خاصہ ہے۔
وصال نبویﷺکاسانحہ کل اصحاب رسولﷺکے لیے بالعموم جبکہ حضرت بلالؓ کے لیے بالخصوص جاں بلب تھا۔ مدینہ شہرکاگوشہ گوشہ آپ کو محسن انسانیت ﷺکی یادلاتاتھاچنانچہ آپ لشکراسامہ بن زید کے ساتھ ملک شام کی طرف سدھارگئے اور آذان دینا بندکردی۔ ایک بارجب حضرت عمر ؓنے بیت القدس فتح کیاتوساتھیوں کے بے حد اسرارپرامیرالمومنین نے حضرت بلال سے آذان کی درخواست کی جس کوآپ نے قبول فرمایا۔ ایک بارآپ دمشق میں محواسراحت تھے کہ خواب میں زیارت اقدسﷺہوئی، استفسارکیاکہ بلال ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے!!!۔ بیدارہوتے ہی آقائے دوجہاں کے شہرکاقصد کیااورروضہ رسول کی زیارت کی۔ مدینہ طیبہ میں حسنین کریمین شفیقین سے ملاقات ہوئی تو انہیں بے حد پیارکیااور ان کی بلائیں لیں۔ شہزادوں نے آذان کی فرمائش کی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آقاکے نورنظر لخت جگرکی فرمائش کو حضرت بلالؓ جیسے محبان رسول پوری نہ کرتے۔ جب آذان کی دوسری شہادت پر پہنچے اور حسب عادت ممبر کی طرف نظراٹھائی تو محسن انسانیت ﷺعنقا تھے، روتے روتے بے ہوش ہو گئے۔ دوسری جانب جس جس کے کانوں میں صدائے بلالی پہنچی دورنبوت کے مناظر تازہ ہوتے گئے اور مردوزن اپنے گھروں سے نکل نکل کرآنسؤں کی لڑیوں کے ساتھ مسجد کی طرف ایسے کھچے چلے آئے جیسے مقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات چلے آتے ہیں۔ یہ حضرت بلالؓکی زندگی کی آخری آذان تھی۔
20محرم، ہجرت کے بیسویں سال ماہتاب عشق نبویﷺزوال پزیرہوگیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ دمشق کے محلہ باب الصغیرمیں آپ نے وفات پائی، اس وقت عمر عزیز، بمطابق سنت، خاص تریسٹھ برس تھی۔ دومزارات آپ سے منسوب ہیں، ایک تو دمشق میں ہے اور ایک اردن کے ”بدر“نامی گاؤں میں ہے۔ اعلان نبوت کے وقت حضرت بلال تیس برس کے تھے، بقیہ تیتیس برس کچھ نہ کیا سوائے صحبت نبویﷺ کے۔ محسن انسانیت ﷺکے ساتھ چلتے رہتے تھے اور جب آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت بلالؓباہر بیٹھ جاتے۔ انتظار کے لمحات طویل ہوتے یامختصر، آپ ﷺ جب گھرسے باہرنکلتے توحضرت بلال آپ کی معیت میں پھرپیچھے پیچھے چل پڑتے۔ یہ ساتھ روزحشر بھی قائم رہے گااور جنت الفردوس کے دورازے پر جب اگلی پچھی امتوں کے افراد منتظر ہوں گے کہ کب خاتم النبیین تشریف لائیں اور سب سے پہلے انہیں کے لیے جنت کے اس خوبصورت ترین حصے کادورازہ کھولاجائے، تومیدان حشرسے سب سے آخر میں روانہ ہونے والے محسن انسانیتﷺجب جنت الفردوس کے دروازے پر پہنچیں گے تو اپنی اونٹنی قصوی پر تشریف رکھے ہوئے ہوں گے اور اونٹنی کی نکیل حضرت بلالؓنے تھامی ہوگی، جنتی کی حیثیت سے توآپ ﷺ ہی جنت الفردوس میں سب سے پہلے داخل ہوں گے لیکن عملاََحضرت بلال قصوی کی نکیل تھامے وہ اولین فرد ہوں گے جنہیں جنت کے اس اعلی ترین درجے میں سب سے پہلے داخلے کا شرف حاصل ہوگا۔ جبکہ جنت کی حوروں میں سے بھی سب زیادہ حسین و جمیل حور آپ کی قسمت میں لکھی گئی ہے۔
حضرت بلال ؓقرآن مجید کی اس آیت کی عملی تصویر ہیں ”اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والاوہ ہے جو زیادہ تقوی والاہے“۔ کہنے کو سب مذاہب انسانیت کے مذاہب ہیں لیکن ہندؤں نے انسانیت کو چار ذاتوں میں تقسیم کررکھاہے اور عورت کو گائے جیسے جانور کے برابربھی عزت حاصل نہیں ہے، یہودی کسی دوسرے کو اپنے مذہب میں داخل نہیں ہونے دیتے الایہ کہ وہ یہودی النسل ہو، مذہب عیسائیت دنیاکاسب سے بڑامذہب ہے اور اس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت افریقہ اور ایشیاسے تعلق رکھتی ہے لیکن گزشتہ دوہزارسالوں میں عیسائیوں کے سب فرقوں کے ”پوپ“صرف یورپ سے ہی وارد ہوئے ہیں، ان کے نزدیک صرف گورے ہی اس منصب کے اہل ہیں جب کہ انسانیت کا دین صرف اسلام ہی ہے جس کا پہلا موذن افریقہ جیسے پسماندہ خطہ ارضی کے بھی انتہائی غربت وافلاس اورقحط زدہ علاقے ”ایتھوپیا“سے تعلق رکھتے تھے اورمروجہ معیارات شرف وبرتری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محسن انسانیت ﷺ نے ان کی عزت افزائی کی انتہامیں انسانوں کو درس انسانیت یاددلایاہے کہ کل انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ طلوع اسلام کا صرف ایک کردار”حضرت بلالؓ“نے دنیاکے پسے ہوئے اور محرومی کا شکار طبقوں کو کس طرح اعتماد نفسی عطا کیاہے؟؟اس کا جواب الفاظ میں دینا ممکن نہیں اور کن کن مسترد شدہ اقوام نے اس کردار سے جتنی جتنی تقویت حاصل کی ہے اسے دنیاکے کسی پیمانے میں تولنااورناپنا ممکن ہی نہیں۔ صرف اسی ایک مقدس ہستی نے دنیا کے ذہنوں میں غلامی وسیاہی کے تصورات کو ہی یکسرتبدیل کر دیاہے اور نفرتوں و حقارتوں کو عزتوں اورمحبتوں میں گوندھ گوندھ کرانسانیت کو اس مقام تک پہنچایاہے کہ آج دنیائے انسانیت سے غلامی کاوجود ہی ختم ہو چکاہے۔