’حبیبی، چلو سیکس پر بات کرتے ہیں‘
دبئی،اکتوبر۔مشرقِ وسطیٰ میں سیکس پر بات کرنا ایک ممنوعہ موضوع ہے، اب اس رویے میں نرمی ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد دلیرانہ انداز میں اس موضوع سے متعلق سوالات پوچھنے سے گریز نہیں کرتے۔روایتی طور پر مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں سیکس کے موضوع پر گفتگو کا امکان شادی کے بعد پہلی رات کے موقع پر خیال کیا جاتا ہے، یہ بات عرب انگلش سیکس تعلیم کے کورسز کا سلسلہ چلانے والی نور امام نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت ساری خواتین کسی اور کے سامنے پہلی مرتبہ عریاں ہوتی ہیں اور اسی طرح پہلی مرتبہ کسی مرد کے جنسی عضو کو دیکھتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کوئی ماہر نفسیات بھی نہیں ہوتا جو کسی مشکل صورت حال سے نکال کر اس عمل کو محبت اور بہت ہی رازدارانہ بے تکلفی میں تبدیل کر دے۔نور امام کے آن لائن عرب انگلش کورسز کا جائزہ لیں تو وہ کسی عورت کی عنقریب ہونے والی شادی پر فوکس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے کورسز میں عرب لڑکیوں کو جسمانی خطوط اور جنسی اعضاء کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ مستقبل کے پارٹنر یا شوہر کے ساتھ بے تکلفانہ گفتگو کرنے میں غیر ضروری گریز یا اجتناب مت کریں۔امام کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ تعلیم اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ برسوں لڑکیوں کو بتایا جاتا ہے کہ سیکس ایک بْری بات اور کرنا خراب فعل ہے اور لڑکیاں اپنی شادی کی پہلی رات اسی تناظر میں شدید خوفزدہ ہوتی ہیں۔نور امام کے مطابق دوسری جانب مرد اپنے ٹین ایج دور میں جنسی خواہشات کی تکمیل کا زیادہ دیر انتظار نہیں کرتے۔ نور امام کے مطابق ایسے بہت سارے واقعات ہیں جب شادی کی پہلی رات مرد اپنی بیوی کی سوچ کا اندازہ لگاتے ہوئے اْسے تذلیل سے گریز نہیں کرتے۔نور امام کے سیکس ایجوکیشن کے پروگرام میں پوچھے گئے سوالات و جوابات نے مشرقِ وسطیٰ کی اعصاب (Nerve) کو چھوا ہے۔ انہوں نے دو ہزار خواتین کو نسوانی معاملات کی تربیت دی اور اس میں ماہواری، جنسی اعضاء اور سیکس سے منتقل ہونے والی بیماریوں بارے معلومات بھی شامل ہیں۔امام کے سوشل میڈیا چینلز کو 14 لاکھ فالورز کی پسندیدگی حاصل ہے اور فیس بک پر فالورز کی تعداد 18 ہزار ہے۔ اس کے علاوہ انسٹاگرام پر ان کے فالورز تین لاکھ آٹھ ہزار جب کہ ٹِک ٹاک شائقین کی تعداد 10 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔یہ امر اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے اکثر ممالک میں سیکس ایجوکیشن انتہائی محدود ہے۔ اب ذرا مصر کی مثال لیتے ہیں۔ مصر میں ہیلتھ کے ماہرین اور آبادی کے مسائل کے ماہرین سیکس ایجوکیشن کے اب بھی مخالف ہیں حالانکہ اس بابت گفتگو سن 1990 میں شروع ہو گئی تھی۔ان کا موقف ہے کہ سیکس کو صرف اور صرف مقامی کلچر کے تناظر میں لیا جانا ضروری ہے۔ ایسے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکس کی اصطلاحات کو بھی افزائش نسل یا انسانی صحت کے تقاضوں کے تناظر میں دیکھا جانا اہم ہے۔ایسی سوچ کے حامل مصری معاشرے کے بیشتر خاندانوں میں سیکس ایجوکیشن کو فحاشی کے زمرے میں لیا جاتا ہے اور کم عمر بچوں کو اس مناسبت سے شادی سے قبل معلومات دینا ناماسب ہے۔اس حوالے سے یہ بھی ایک منفی سوچ کا نتیجہ ہے کہ جنسی عمل سے افزائش پانے والے ایچ آئی وی ایڈز وائرس کو بھی ایک ممنوعہ موضوع کے طور پر لیا جاتا ہے اور دوسری جانب اس بیماری سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔تحریر انسٹیٹیوٹ برائے مِڈل ایسٹ پالیسی سے وابستہ ریسرچر حبیبہ عبدالآل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مصر کی جنسی تعلیم سے نا آشنا آبادی کو ایڈز کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ نا ہونے کے برابر ہے۔