جوہری مذاکرات میں ایران کی ٹال مٹول، مغربی سفارت کار کیا کہتے ہیں؟
تہران/لندن،اکتوبر۔تہران ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ وہ جوہری معاہدے کی بحالی کے واسطے بات چیت جاری رکھنے کے لیے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم اس کی جانب سے مسلسل ٹال مٹول دیکھی جا رہی ہے۔ایران کے صدر سے لے کر وزیر خارجہ تک اس بات کو باور کرا چکے ہیں کہ ان کا ملک ویانا مذاکرات کی میز پر واپسی کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم اس "حسنِ نیت” کا ابھی تک عملی اظہار سامنے نہیں آیا ہے۔ تہران نے مذاکرات میں واپس آنے کی تاریخ متعین نہیں کی بلکہ وقت کے تعین کو "کھلا” چھوڑ دیا ہے۔اس حوالے سے ایک سینئر مغربی سفارت کار نے "پولیٹیکو” اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غالب گمان ظاہر کیا ہے کہ تہران مقررہ رعایتوں کے حصول کے بعد ہی مذاکرات کی میز پر واپس آئے گا۔سفارت کار کے مطابق "یقینا ایران وقت کے عامل کو ذریعہ بنا کر کھیل رہا ہے جب کہ اس دوران میں وہ اپنے جوہری پروگرام کو مضبوط بنا رہا ہے تا کہ مذاکرات میں اپنے موقف کو تقویت دے سکے”۔مغربی سفارت کار نے مزید کہا کہ ایران کا تجزیہ یہ ہے کہ افغانستان کی حالیہ پیش رفت اور فرانس کے ساتھ اختلافات کے بعد امریکا کی پوزیشن "کمزور” ہو گئی ہے۔اسی طرح کئی سفارت کاروں نے پولیٹیکو کو باور کرایا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہہان نے گذشتہ ہفتے نیو یارک کے دورے کے موقع پر بین الاقوامی ذمے داران کے ساتھ 50 سے زیادہ خصوصی ملاقاتیں کیں۔یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلینکن نے کل جمعے کے روز باور یہ باور کرایا تھا کہ گیند اب ایران کے کورٹ میں تاہم یہ زیادہ عرصے تک نہیں رہے گی۔ویانا مذاکرات کا آغاز جو بائیڈن کے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے 77 روز بعد 6 اپریل 2021ء کو ہوا تھا۔ رواں سال جون میں بات چیت کا سلسلہ موقوف ہو جانے سے پہلے اس بات چیت کے 6 ادوار ہوئے۔ تاہم بعض کانٹے دار مسائل کے حوالے سے موافقت سامنے نہیں آ سکی۔