برطانیہ میں 25 فیصد افراد شدید اور ناقابل برداشت درد کاشکار ہیں
لندن ،مئی۔بی بی سی کیلئے اپسوس کی جانب سے کئے گئے ایک سروے رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 25 فیصد افراد شدید اور ناقابل برداشت درد کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں افراد کا اس سلسلے میں ایک ہی جواب تھا کہ وہ طویل عرصے سے ناقابل برداشت درد کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اپسوس نے 16 سال سے 75سال عمر کے کم وبیش 4,000 افراد سے بات چیت کی، ان میں سے 25فیصد افرا نے شدیددرد اورغلط سمجھی جانے والی صورت حال کی شکایت کی جبکہ درد کے اسپیشلسٹ کا کہنا ہے کہ حکومت ایسی پیچیدہ صورت حال سے دوچار افراد کے علاج کیلئے کوئی انتظام نہیں کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دردوں کا علاج کئی عشروں پرانا ہے اور لاکھوں افراد کو درد کو کنٹرول کرنے کے انتظام کے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ 3مہینے سے زیادہ جاری رہنے والے درد کو پرانا یا کہنہ درد کہا جاتا ہے۔ درد سے انسان کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اس سے جسمانی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں، جیسے ڈسک کا کھسک جانا وغیرہ لیکن ان کی کوئی واضح وجہ نہیں ہوتی، اس سے کیریئر تباہ ہوجاتا ہے، رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، لوگوں کی آزادی چھن جاتی ہے اور ان کے مستقبل کے خواب بکھر جاتے ہیں۔ این ایچ ایس کمیونٹی پین سسٹم کے ڈاکٹر کرس بیکر کہتے ہیں کہ ہمارا نروس سسٹم بہت زیادہ محتاط ہوجاتا ہے، اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ وارننگ کے سگنل بھیجنا شروع کرتا ہے اور یہی سگنل درد ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے درد کی تشخیص کرنا بہت مشکل ہوتی ہے اور صحیح دو ا نہ ملنے پر حالت اور زیادہ خراب ہوجاتی ہے، غلط تشخیص سے تشخیص میں تاخیر ہوتی ہے، کم تجربہ کار اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ اس سے معاملات اور زیادہ خراب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر بارکر کا کہنا ہے کہ این ایچ ایس کے پاس ایسی پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کا کوئی سیٹ اپ نہیں ہے۔ درد کی شکایت بہت عام ہے، اس کی مختلف اور بھی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں، اس سے پہلے کی اسٹڈی میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ میں 20 سے 50 فیصد افراد کہنہ درد کے شکار ہیں۔ معمر لوگوں میں یہ شرح اور زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ہیلتھ اور کیئر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ کی تازہ گائیڈ لائن میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر کہنہ دردوں کا افیون یہاں تک کہ بعض معاملات میں پیراسیٹامول سے بھی علاج نہیں کرنا چاہئے۔ اپسوس سروے کے مطابق فی الوقت شدید کہنہ درد کے شکار مریض افیون لے رہے ہیں، جن میں کوڈین، مارفین اور فینٹینی شامل ہیں۔افیون مختصر مدت کے درد میں کار آمد ہوتی ہے لیکن طویل عرصے تک مسلسل درد میں اس سے مدد ملنے کے شواہد نہیں ملتے۔ اس کے باوجود 1998سے 2018تک افیون کی تشخیص دگنی ہوگئی، جس کی وجہ سے برطانیہ کے میڈیسن ریگولیٹر کو اس کے زیادہ استعمال سے ہونے والے متوقع نقصان کے بارے میں سخت وارننگ جاری کرنا پڑی۔ ریسرچ کے مطابق اس وقت افیون استعمال کرنے والے 40 فیصد افراد نے 5سال قبل افیون لینا شروع کی تھی۔ NICE میں مستقل درد کی ماہر ڈاکٹر کیتھی اسٹینرڈ کہتی ہیں کہ افیون جیسی دوائوں سے بعض طرح کے دردوں بہت کم افاقہ ہوتا ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ لاکھوں لوگ اس پیچیدہ صورت حال میں بھی درست دوا نہیں لے رہے ہیں لیکن دوسرے آپشن مشکل ہیں اور ان سے مریض مشکل میں پڑ سکتا ہے۔