بالی وڈ: ہندی زبان کی فلم انڈسٹری جنوبی انڈیا کی فلموں کے سامنے ماند کیوں پڑ رہی ہے؟
ممبئی،مارچ۔ایک وقت تھا جب ہندی زبان سے تعلق رکھنے والے سنیما شائقین کو ’مدراسی سنیما‘ کے نام پر صرف رجنی کانت، کمل ہاسن یا چرن جیوی کا نام معلوم ہوتا تھا۔ کبھی کبھی وینکٹیش اور نگرجونا کا بھی۔ مگر آج پربھاس اور الّو ارجن جیسے نام ہر گاؤں دیہات میں مقبول ہیں۔دھنوش، اجیت، موہن بابو، وجے دیواراکونڈا، چنیا وکرم، کھیچا سدیپ، پون کلیان، ناگا چیتنیہ، رامچرن تیجا، سوریہ سمانتھا، این ٹی راما راؤ جونیئر، رشمیکا مندانا، آپ نام لیتے جائیں اور پائیں گے کہ اترپردیش سے بہار، اور بنگال سے مدھیہ پردیش اور گجرات تک ان کے ناموں کا جادو پھیلا ہوا ہے۔جنوبی انڈیا کی فلم انڈسٹری کے اداکاروں کا ہندی سنیما میں آنا بھی ایک طویل عرصے سے جاری ہے جن میں وجنتی مالا، ہیما مالنی، جیا پرادا، میناکشی شیشادری، اور اب شروتی ہاسن شامل ہیں۔ساؤتھ انڈین سنیما کی اداکارائیں ہندی فلموں میں کام کر کے مشہور ہوئیں لیکن اب دور بالکل مختلف ہے اور ساؤتھ کے اداکار اپنی ہی فلموں کے ذریعے پورے ملک میں مشہور ہو رہے ہیں۔ یہ فلمیں تفریح سے بھرپور ہوتی ہیں، شائقین کی نبض پر گرفت رکھتی ہیں اور ان کی معقول حکمتِ عملی گذشتہ 20 سالوں سے بالی وڈ کو زک پہنچا رہی ہے۔بالی وڈ کا قلعہ فتح کرنے کے لیے ساؤتھ کے لوگوں کی بھرپور محنت جاری ہے اور ساؤتھ انڈین سنیما اب بالی وڈ پر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے نہایت نزدیک ہے۔مگر یہ نہیں سوچیے گا کہ یہ صرف ایک فلم ’پشپا‘ کی وجہ سے ہونے والا ہے جس نے پورے ملک میں طوفان مچا رکھا ہے اور کروڑوں کا بزنس کیا ہے۔
بالی وڈ اداکاروں کے ذریعے عوام تک پہنچنا:ساؤتھ سنیما کے اس پورے منصوبے میں ہندی زبان کے سنیما شائقین کو ‘چارہ ڈالنے’ کی حکمتِ عملی بھی ہے۔ ساؤتھ نے انڈیا کے بڑے بڑے سٹارز کو چھوٹے چھوٹے کردار بھی دیے ہیں۔ یہ سلسلہ روبوٹ میں ایشوریہ رائے سے لے کر عنقریب آنے والی فلم آر آر آر میں امیتابھ بچن، عالیہ بھٹ اور اجے دیوگن تک جاری ہے اور آگے بھی رہے گا۔درحقیقت انڈین اداکاروں کے ساؤتھ کی فلموں میں آنے سے ساؤتھ کے لوگ یہ جان گئے ہیں کہ بالی وڈ کی مارکیٹ پر قبضہ جمانے کا اْن کا خواب پورا ہوتا جا رہا ہے۔مگر ‘پشپا’ کے الّو ارجن کہتے ہیں کہ ’بالی وڈ کے لوگوں کو بھی ہم اپنی انڈسٹری میں خوش آمدید کہتے ہیں، مگر ساؤتھ میں یہاں کے اپنے ستاروں کی چمک دھمک اتنی زیادہ ہے کہ لوگ باہر کے اداکاروں کو ہضم کرنے میں مشکل محسوس کریں گے۔‘ساؤتھ کا یہ ’حملہ‘ گذشتہ 15 سے 20 برس سے جاری ہے جس میں پہلے تو فلم ساز بالی وڈ کے لوگوں کے ساتھ ‘مدراسی’ فلمز بنا لیا کرتے تھے مگر پھر سری دیوی اور جیا پرادا بالی وڈ کے مرکزی دھارے میں آنے لگیں۔ساؤتھ نے بھی ہندی فلموں سے اداکار اپنی فلمز میں لیے مگر ان میں زیادہ تر کریکٹر آرٹسٹ تھے جن میں راہل دیو، سونو سود، چنکی پانڈے، ونیت کمار اور مرلی شرما کو اکثر ساؤتھ کی ڈبنگ والی فلمز میں دیکھا جاتا تھا۔اب ساؤتھ انڈین فلموں کے پیش کاروں اور بڑی فلم کمپنیوں نے کوئی دو دہائیوں سے ساؤتھ کی ڈبنگ والی فلمز کو قومی ٹی وی پر سپانسر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب فلم چینلز کا زیادہ تر ایئرٹائم ان ڈبنگ والی فلمز کے لیے ہی مختص ہے۔ایک وقت تھا جب ساؤتھ انڈین فلموں کے ٹی وی حقوق ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک میں دستیاب ہوتے تھے۔ اس وقت یہ ٹی وی چینلز کا فارغ وقت سستے داموں میں بھر دیا کرتی تھیں۔ اب یہ معاہدے کروڑوں روپے میں ہوتے ہیں۔’ڈب مارکیٹ‘ کا یہ ہتھیار جسے ان علاقوں کے لوگوں نے بالی وڈ کا قلعہ فتح کرنے کے لیے استعمال کیا، اب بالکل درست مقام پر ہے۔
’بالی وڈ کو ساؤتھ کی فلموں سے خطرہ ہے‘:نامور فلم ساز میہل کمار کہتے ہیں کہ ’یہ پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ اس وقت جو ہو رہا ہے وہ بالی وڈ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ساؤتھ کا ڈبنگ کا فارمولہ ہٹ ہو گیا ہے۔‘میہل کمار اس کی وجہ سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بالی وڈ 100 فیصد خطرے میں ہے کیونکہ یہاں مواد صرف یک رنگی ہو گیا ہے۔ اگر آپ کو سٹار مل جائے تو فلم بنا دیں۔ صرف ستاروں کے چہرے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ ڈائریکٹر کو پھر خود ہی سارا کام کرنا پڑتا ہے۔ اب فلم پشپا 10 ویں ہفتے میں آ گئی ہے۔ میں کسی کا نام نہیں لوں گا مگر ایک بڑی کمپنی ہے جو گانے خریدتی ہے اور پھر ڈائریکٹر سے کہتی ہے کہ میرے پاس یہ 10 سے 12 گانے ہیں۔ اچھے کتنے ہوں گے؟ دو۔ یہ سب کیا ہے۔ ساؤتھ کے لوگ جانتے ہیں کہ بالی وڈ کے مواد کی کوئی اہمیت نہیں اس لیے اْنھوں نے لوگوں کی پسند کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہانیوں اور گانوں پر کام کیا۔ ہم لوگوں کو یہ مواد نہیں دے سکے۔‘گذشتہ چند برسوں میں ساؤتھ کی ڈب ہوئی فلمیں بالی وڈ پر اتنی چھا گئی ہیں کہ کبھی کورین اور ہالی وڈ فلموں کے چربے بنانے والا بالی وڈ اب تمل، تیلگو اور ملیالم فلموں پر منحصر ہے۔ سلمان خان اور اکشے کمار اس کام میں پیش پیش رہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اکشے کمار کی فلمی زندگی میں اہم موڑ ساؤتھ کی فلم کا ری میک بنا کر راؤڈی راٹھور سے آیا، ظاہر ہے کہ بالی وڈ کے لیے ساؤتھ کی فلموں کا ری میک بنانا ایک منافع بخش سودا ہے لیکن انھیں یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی۔اسی لیے فلم پشپا نے 14 دن میں 234 کروڑ روپے کما لیے ہیں اور پھر بھی مجمع کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس سے قبل ‘ماسٹر’ نے 209.60 کروڑ، وکیل صاحب نے 119.90 کروڑ، اکھنڈ نے 103 کروڑ، انّاتھے نے 102.50 کروڑ، اپینا نے 93.30 کروڑ اور ڈاکٹر نے 81.60 کروڑ کمائے ہیں۔
ہندی بیلٹ پر قبضہ باہوبلی نے شروع کیا:یہ بات ماننے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ دولت کا سمندر کما لینے والی فلم باہوبلی سے ہی ساؤتھ کی فلموں کی ہندی بیلٹ پر گرفت مضبوط ہوئی تھی۔ مگر یہ صرف اس لیے نہیں تھا کہ فلم اچھی تھی، بلکہ یہ بہت ‘پرشکوہ’ بھی تھی اور پھر کٹپا ماما کا بھی سوال تھا، کہ آخر ‘کٹپا نے باہوبلی کو کیوں مارا؟’ یہ سوال شعلے کے ڈائیلاگز کی طرح امر ہو گیا ہے۔انڈیا میں فلموں کے کاروبار پر نظر رکھنے والے اتل موہن کہتے ہیں کہ ’اس کی بنیاد 10 سے 15 سال پہلے رکھی گئی تھی جب ساؤتھ کی فلمیں ہندی ڈبنگ کے ساتھ آنی شروع ہوئیں۔ اس وقت ہمیں یہ مفت میں ملنی شروع ہوئیں اور دوسری طرف ہم بالی وڈ کے لوگوں نے حقیقت پسندانہ سینما کا رخ کرنا شروع کیا، اور پھر ساؤتھ کے پاس یوٹیوب کا ہتھیار آ گیا۔’اتل بتاتے ہیں کہ ’ساؤتھ کا مواد دیکھنے والے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان کے ڈراموں کی ریٹنگز بھی بڑھ گئی ہے جس کے باعث الّو ارجن، مہیش بابو، وجے اور اجیت مشہور ہونے لگے ہیں۔ ہم ‘کلاس’ تیار کر رہے تھے اور وہ عوامی انٹرٹینمنٹ پر توجہ دے رہے تھے۔ یہی چیز سنگل سکرینز کو درکار تھی اور باہوبلی اسے ایک بالکل مختلف سطح پر لے گئی۔‘اتل موہن کہتے ہیں کہ ’اب صرف تیلگو فلموں کو دیکھیں۔ اْن کے پاس آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے علاقے ہیں اور وہ صرف وہاں سے ہی 100 کروڑ جمع کر لیتے ہیں جبکہ ہمارے اداکار پورے ملک سے 100 کروڑ کمانے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے بالی وڈ کا کاروبار اب بھی ساؤتھ سے 20 گنا پیچھے ہے۔‘اتل موہن کو لگتا ہے کہ ’ساؤتھ کی فلمیں خود کو ترقی دے رہی ہیں اور ہم اپنی فلموں کو تنزلی۔‘وہ کہتے ہیں کہ’اگر آپ کو معقول مواد دیکھنا ہے تو ملیالم سنیما دیکھیں۔ اگر آپ کو عوامی انٹرٹینمنٹ دیکھنی ہے تو تمل یا تیلگو فلمیں دیکھیں۔ مگر پھر سلمان اور اکشے جیسے سٹارز ان کی فلمیں دوبارہ بنا رہے ہیں۔ باہوبلی بالی وڈ میں نہیں بنائی گئی پھر بھی اس فلم نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔‘
’نارتھ ساؤتھ خلیج اب ختم ہو چکی ہے‘:اتل موہن کہتے ہیں کہ ’یہ بالی وڈ کے لیے مشکل وقت ہے۔ اب پراجیکٹس ہندی میں بنائے جا رہے ہیں اور بالی وڈ کے لوگ جان چکے ہیں کہ ملٹی سٹار مصالہ ہی چلے گا۔ اس پر کام شروع ہو چکا ہے اور اس کے نتائج اگلے دو سے تین سالوں میں آئیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ بالی وڈ سٹارز نے خود کو ہر جگہ پھیلا لیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اْنھیں خود کو تھوڑا محدود کرنا ہو گا، تبھی وہ ساؤتھ کے سٹارز کی طرح مشہور ہو سکیں گے۔‘فلم تجزیہ کار کومل ناہتا کہتی ہیں کہ ’بالی وڈ کو پہلے مقابلہ بالی وڈ سے تھا۔ اب ہالی وڈ، تمل، تیلگو اور آن لائن پلیٹ فارمز سے بھی ہے۔ آپ مشہور تڑکا ڈال دیں مگر یہ کام نہیں کرے گا۔ اب اوسط درجے کی چیزوں کے لیے جگہ سکڑ رہی ہے۔ ہمیں اب اوسط سے بڑھ کر کام کرنا ہو گا۔ لاک ڈاؤن نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ بالی وڈ کو اب بہت محتاط ہونا پڑے گا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ساؤتھ کے دریا کا دہانہ کھلا ہوا ہے تو سیلاب تو آئے گا ہی۔ اپنے علاقوں میں مقبولِ عام ساؤتھ انڈین ستارے اب ہندی بیلٹ کے ناظرین کے دل جیتنے کے لیے تیار ہیں۔ عوام بھی اس کے لیے تیار ہیں۔ کئی فلمیں پائپ لائن میں ہیں۔ اب فلموں میں نارتھ اور ساؤتھ کی تخصیص ختم ہو چکی ہے، اب صرف انڈین سنیما ہے اور یہ ایسے ہی چلے گا۔‘