بائیڈن کے پوتن کے بارے میں سکرپٹ سے ہٹ کر بیانات خطرناک کیوں ہو سکتے ہیں
وارسا/واشنگٹن،مارچ۔وارسا کے شاہی محل میں جمع پولینڈ کے سرکاری حکام اور معززین کے سامنے اپنی تقریر میں امریکی صدر نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ دنیا جمہوریتوں اور شخصی حکومتوں کے درمیان ایک فیصلہ کن تنازعے کے دور سے گزر رہی ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پچھلے ہفتے کے دوران غیر رسمی تبصروں کا ایک سلسلہ سامنے آیا ہے جس نے امریکہ اور روس کے تعلقات کو تقریبا نقطہ ابال تک پہنچا دیا ہے۔بہر حال ان تبصروں میں ممکنہ طور پر سب سے سخت تبصرہ ہفتے کے روز پولینڈ میں آیا جسے ان کی ایک بڑی تقریر کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے جس کے آخر میں انھوں نے کچھ ایسا کہا جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ وہ روسی صدر پوتن کو اقتدار سے ہٹانے کی بات کر رہے ہیں۔وارسا کے شاہی محل میں جمع پولینڈ کے سرکاری حکام اور معززین کے سامنے اپنی تقریر میں امریکی صدر نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ دنیا جمہوریتوں اور شخصی حکومتوں کے درمیان ایک فیصلہ کن تنازعے کے دور سے گزر رہی ہے۔انھوں نے عہد کیا کہ نیٹو اپنے رکن ممالک کی سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کرے گا۔ انھوں نے یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ بھی کیا، حالانکہ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی فوج وہاں روسی افواج کے خلاف جنگ میں شامل نہیں ہوگی۔یہ ایک محاذ آرا لیکن نپی تلی تقریر تھی اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے لے کر دوسرے اعلیٰ حکام مہینوں سے اسی طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں۔اور پھر شکریہ اور الوداع کہنے کے دوران مسٹر بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب کے بارے میں مزید کہا: بخدا، یہ شخص اقتدار میں رہنے کے قابل نہیں۔ روس کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ یہ تقریر – اور روس سے متعلق اقتباسات – شائستہ الفاظ استعمال کرنے کے لیے حیران کن ہیں۔ انھوں نے مزید کہا وہ نہیں سمجھتے کہ دنیا صرف امریکہ اور زیادہ تر یورپ تک ہی محدود ہے۔ اور پھر امریکہ کی اس بیان سے پیچھے ہٹنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اسی دوران کہا کہ صدر کا نقطہ نظر یہ تھا کہ پوتن کو اپنے پڑوسیوں یا خطے پر طاقت استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وہ روس میں پوتن کے اقتدار یا حکومت کی تبدیلی پر بات نہیں کر رہے تھے۔ جس رفتار کے ساتھ امریکہ نے اپنے صدر کے بیان پر وضاحت جاری کی اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان کے الفاظ میں کتنے خطرات مضمر ہو سکتے ہیں۔ بعد میں مسٹر بلنکن کے ہاں بھی اس کی بازگشت سنائی دی۔اس سے پہلے امریکی صدر نے مسٹر پوتن کو قصائی کہا تھا۔ گذشتہ ہفتے وہ روسی رہنما پر جنگی جرائم کا الزام لگا کر اپنی ہی انتظامیہ کے سفارتی عمل سے آگے نکلتے نظر آئے۔ دونوں صورتوں میں مسٹر بائیڈن کے تبصروں نے ماسکو کی طرف سے مذمت اور انتباہات کو جنم دیا کہ امریکہ اور روس کے سفارتی تعلقات منقطع ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔کسی ملک کے رہنما کی مذمت کرنے اور اس کی برطرفی کا مطالبے کے درمیان ایک لکیر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی سفارتکاری کی حد سے زیادہ شعلہ بیانی ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی لکیر تھی جس کا امریکی اور سوویت روس دونوں نے سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں بھی احترام برقرار رکھا تھا۔ اور یہ وہ ایک لائن ہے جسے مسٹر بائیڈن نے بظاہر پار کیا تھا۔اس سے پہلے امریکی صدر نے مسٹر پوتن کو قصائی کہا تھا۔ گذشتہ ہفتے وہ روسی رہنما پر جنگی جرائم کا الزام لگا کر اپنی ہی انتظامیہ کے سفارتی عمل سے آگے نکلتے نظر آئے۔ اقتدار کی تبدیلی ایک ایسی چیز ہے جس کا طاقتور ممالک پر کمزور ممالک پر مسلط کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جس کا مطالبہ ایک جوہری ہتھیار سے مسلح ملک دوسرے سے مطالبہ کرے۔یہاں تک کہ اتوار تک کچھ امریکی اتحادی بھی مسٹر بائیڈن کے تبصروں سے خود کو دور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے خبردار کیا ہے کہ امریکی صدر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم اس جنگ کو بغیر بھڑکائے روکنا چاہتے ہیں جو روس نے یوکرین میں شروع کی ہے۔ اگر ہم یہی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چیزوں کو بڑھانا نہیں چاہیے، نہ ہی الفاظ سے یا عمل سے۔ واشنگٹن میں کانگریسی رہنما بھی اس پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ایڈاہو سے سینیئر ریپبلکن جم رِش نے مسٹر بائیڈن کے ریمارکس کو خوفناک لغزش قرار دیا۔انھوں نے کہا: خدا را، میری خواہش ہے کہ وہ انھیں سکرپٹ کے تحت ہی رکھیں۔۔۔ جب بھی آپ کہیں یا حتیٰ کہ، جیسا کہ انھوں نے کیا، یہ ظاہر ہوتا ہے پالیسی اقتدار کی تبدیلی کی ہے، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کرنے والی بات ہے۔ اس انتظامیہ نے جنگ کو بھڑکنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اسے بھڑکانے کے لیے آپ حکومت کی تبدیلی کے مطالبہ سے بڑی کوئی دوسری بات نہیں کر سکتے۔ مسٹر بائیڈن کے ہاں بغیر تیاری والے تبصروں کا ریکارڈ رہے جو انھیں مشکل حالات میں ڈالتا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ماضی میں وہ صدارتی امیدوار ہونے سے محروم بھی رہے اور جب وہ اوبامہ انتظامیہ میں نائب صدر تھے تو انھوں نے کبھی کبھار اہلکاروں کو مایوس بھی کیا تھا۔ تاہم وہ باتیں مکمل طور پر حادثاتی بھی نہیں ہیں۔ وہ یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ مسٹر بائیڈن کا دل کہاں ہے، یہاں تک کہ اگر ان کا دماغ وار ان کے آس پاس والوں کا دماغ یہ کہتا ہو کہ وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھیں۔دی ایٹلانٹک کے ٹام نکولس لکھتے ہیں بعض اوقات، یہ ایک ایسی سیاسی طاقت ہوتی ہے جو مسٹر بائیڈن کو امریکی عوام کے جذبات سے جڑنے کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن اس سفارتی بحران کے موجودہ دور میں جہاں ناقص الفاظ کا انتخاب دور رس نتائج کا باعث بن سکتا ہے وہیں وہ ایک کمزوری بھی ہیں۔مسٹر نکولس لکھتے ہیں: پوتن کی بربریت کا شکار ہونے والے لوگوں سے بات کرنے کے بعد بائیڈن پر اپنے مزاج کے مطابق عمل نہ کرنے کا الزام لگانا مشکل ہے۔ لیکن ہر عالمی رہنما کے الفاظ اس وقت اہمیت رکھتے ہیں، اور امریکہ کے صدر کے الفاظ سے زیادہ کوئی اور زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یوکرین میں جنگ اس رخ پر نہیں جا رہی ہے جس طرح مسٹر پوتن نے سوچ رکھا تھا۔ روس کی فوج سخت لڑائی میں پھنس گئی ہے اور ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس کی معیشت اقتصادی پابندیوں کے بوجھ تلے دب رہی ہے۔ روس باقی دنیا سے تیزی سے الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے۔یہ صورت حال امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کشیدگی میں کمی کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ صورت حال مسٹر پوتن کو مزید مایوس بھی کر سکتی ہے۔ اور اگر روسی رہنما کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا اقتدار داؤ پر ہے، اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ امریکہ خفیہ طور پر اس قسم کی کوشش سے باز نہیں آ رہا ہے تو بحران یہاں سے جو موڑ لے گا وہ امن کی طرف تو نہیں جاتا ہے۔