بائیڈن کا کانگریس پر اسلحے سے متعلق نئی پابندیوں کی منظوری کے لیے زور

واشنگٹن ڈی سی ،جون۔امریکہ کیصدر جو بائیڈن نے کانگریس سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں پے درپے چونکا دینے والے فائرنگ کے واقعات کوسامنے رکھتے ہوئے اسلحے سے تشدد کوروکنے کے لیے عام فہم اقدامات کی منظوری دے۔جمعرات کو قوم ے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کانگریس پر زور دیا کہ سیمی آٹومیٹک، ریپڈ فائر اسالٹ ہتھیاروں اور اعلیٰ صلاحیت والے میگزین پر 1994 میں عائد کردہ پابندی کو بحال کیا جائے۔ مذکورہ ہتھیاروں پر پابندی2004 میں ختم ہو گئی تھی۔بائیڈن نے کہا کہ ” اگر ہم اسلحے پر پابندی نہیں لگا سکتے، تو ہمیں ان کی خریداری کے لیے عمر کی حد 18 سے بڑھا کر 21 کر دینی چاہیے، اس کے علاوہ اسلحہ خریدنے والوں کے ماضی کی بھی سخت جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔”اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ٹیکساس کے پرائمری اسکول میں حملہ آور ملزم نے 18 سال کی عمر کو پہنچتے ہی دو بندوقیں خریدی تھیں جس کا استعمال کرتے ہوئے اس نے 19 طالب علموں اور دو اساتذہ کو قتل کیا۔صدر بائیڈن نے اس استثنیٰ کو بھی منسوخ کرنے پر زور دیا جو اسلحہ بنانے والوں کو ذمہ داری سے بچاتا ہے۔ ان کے بقول ، "اسلحہ سازی ملک کی واحد صنعت ہے جسے اس قسم کا استثنیٰ حاصل ہے۔ ذرا تصور کریں، اگر تمباکو کی صنعت مقدمہ چلائے جانے سے محفوظ ہوتی تو آج ہم کہاں ہوتے۔”صدر بائیڈن کے خیال میں ہتھیاروں سے متعلق نئی پابندیاں گن وائلنس کی روک تھام میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔صدر نے زور دیا کہ اس مسئلے کی سخت نگرانی کرنے کی ضرورت ہے اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور کچھ برا ہوتا ہے، تو آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر نے جن اقدامات کی وکالت کی ان کے سیاسی طور پر منقسم کانگریس میں منظوری حاصل کرنے کا امکان نہیں ہیکیوں کہ برسوں سے امریکی قانون ساز اسلحے سے متعلق قانون سازی پر اختلافات کا شکار ہیں۔ری پبلکن بڑے پیمانے پر فائرنگ اور اسلحے کے تشدد کی مذمت کرتے ہیں لیکن انہوں نے اسلحے کے کنٹرول سے متعلق قانون سازی کو باقاعدگی سے روکا ہے۔ ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کے حق میں مجوزہ پابندیاں قانون کی پابندی کرنے والے شہریوں کی آزادی پر اثر انداز ہوں گی اور امریکیوں کے اسلحہ رکھنے کے اس حق سے متصادم ہیں جو امریکی آئین کی دوسری ترمیم میں درج ہے۔اپنے خطاب میں بائیڈن نے ایک خط کا حوالہ دیا جو انہیں ریاست ٹیکساس کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والی لڑکی کی دادی کی طرف سے موصول ہوا تھا۔خط میں لکھا ہے، "اس پوشیدہ لکیر کو مٹا دیں جو ہماری قوم کو تقسیم کر رہی ہے۔ اس کا حل نکالا جائے اور جو خرابی ہے اسے دور کیا جائے اور ایسی تبدیلیاں کی جائیں جو اس (طرح کے واقعات) کو دوبارہ ہونے کو روک سکیں۔”وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک نے اسلحہ سے ہونے والے قتل عام کا مشاہدہ کیا ہے لیکن امریکہ اس معاملے میں تنہا کھڑا ہے کہ وہ ان سانحات کے بعد گن کنٹرول کے سخت قوانین پاس کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اسکاٹ لینڈ کے علاقے ڈن بلین میں 1996 میں ایک اسکول میں فائرنگ کے ایک سال بعد برطانیہ نے زیادہ تر ہینڈ گنز کی نجی ملکیت پر پابندی لگا دی۔ ڈن بلین کے اسکول میں فائرنگ سے 16 بچے اور ایک استاد کی ہلاکت ہوئی تھی۔اسی سال، آسٹریلیا میں بھی بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے جن میں 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بعدازاں آسٹریلوی حکومت نے تقریباً تمام سیمی آٹومیٹک رائفلوں اور شاٹ گنز پر پابندی لگا دی تھی اور اسلحہ سازوں سے چھ لاکھ سے زیادہ ہتھیار واپس خریدنے کا پروگرام شروع کیا تھا۔اس سلسلے میں وینڈربلٹ یونیورسٹی کے ماہر عمرانیات جوناتھن میٹزل نے کہا کہ ان ممالک میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے بعد سیاسی میدان میں لوگ اسلحے کے تشدد کو روکنے کے لیے سمجھوتہ کرنے کے لیے متفق ہوئے ہیں لیکن امریکہ میں ایسا نہیں ہے۔ان کے بقول دوسرے ممالک میں ‘نیشنل رائفل ایسوسی ایشن’ جیسی کارپوریٹ گن لابی نہیں ہے۔سن 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں سفید فام بندوق بردار شخص کے ہاتھوں 51 مسلمان نمازیوں کی ہلاکت کے ایک ماہ سیبھی کم عرصے کے بعد، نیوزی لینڈ کے قانون سازوں نے فوجی طرز کے، نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی کے لیے بھاری اکثریت سے ووٹ دیا اور ایسے اسلحے کی واپسی خرید کا پروگرام نافذ کیا۔ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں شہری تقریباً 400 ملین اسلحے کے مالک ہیں۔ 2021 کی پیو ریسرچ رپورٹ کے مطابق تقریباً 40 فی صد امریکی بالغوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے گھر میں رہتے ہیں جہاں اسلحہ موجود ہیجب کہ 30 فی صد کہتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر اسلحے کے مالک ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق 44 فی صد ری پبلکن اور ری پبلکنز کی طرف جھکاؤ رکھنے والے آزاد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اسلحے کے مالک ہیں، اس کے مقابلے میں 20 فی صد ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹک جھکاؤ رکھنے والے ووٹرز ایسے ہیں۔اگرچہ زیادہ تر امریکیوں کے پاس ہینڈ گن یا رائفلیں بنیادی طور پر تحفظ یا شکار کے لیے ہیں، لاکھوں افراد کے پاس تیز رفتار AR-15 جیسے ہتھیار بھی موجود ہیں۔تازہ ترین گیلپ پول کے مطابق 81 فی صد امریکیوں کا کہنا ہے کہ نیم خودکار اسلحے کی تیاری، ان کی ملکیت رکھنے اور فروخت پر پابندی ہونی چاہیے۔گن کنٹرول کے معاملے پر کسی سمجھوتے کے حصول کے لیے کچھ قانون ساز محدود پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔امریکی ایوانِ نمائندگان کی جوڈیشری کمیٹی نے جمعرات کو ایک بل پر بحث کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ گن کنٹرول کی کوشش بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات کے بعد کا ردِعمل ہے۔کمیٹی کی تیار کردہ سفارشات کے تحت ہتھیاروں کی خریداری کی عمر کو 18 سے بڑھا کر 21 برس کیا جائے گا اور بڑے پیمانے پر میگزینز کی خریداری پر پابندی اور غیر رجسٹرڈ ہتھیاروں پر پابندی شامل ہے۔مذکورہ بل اگلے ہفتے کے اوائل میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کنٹرول والے ایوان سے پاس ہوسکتا ہے۔ لیکن اس بات کی توقع نہیں ہے کہ یہ بل سینیٹ میں آگے بڑھے گا کیوں کہ اس ایوان میں دونوں جماعتوں کے ارکان کی تعداد 50، 50 ہے۔کانگریس کی جانب سیوسیع اقدامات کی عدم موجودگی میں، نیویارک اور کیلی فورنیا میں ریاستی ایوانوں کے کچھ قانون ساز اپنے دائرہ اختیار میں اسلحے سے متعلق سخت قوانین پر زور دے رہے ہیں۔ڈیوک یونیورسٹی میں پبلک پالیسی اور پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کرسٹن گوس نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ "ریاستی قانون سازی شاذ و نادر ہی سرخیوں میں آتی ہے، لیکن یہ بہت اہم ہے کیوں کہ امریکی نظام میں ریاستوں کی اسلحے کے ریگولیشن کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔”اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں اس سال 232 بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں، ان واقعات میں شوٹر سمیت چار یا اس سے زیادہ افراد زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک غیر منافع بخش تحقیقی گروپ ‘گن وائلنس آرکائیو’ کے مطابق امریکہ میں کم از کم چار بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعے کے بغیر ایک ہفتہ بھی نہیں گزرتا۔

 

Related Articles