ایکواڈور جیل میں لڑائی
حکام کو مسخ شدہ لاشوں کی شناخت میں مشکلات کا سامنا
گویاکِل،اکتوبر۔ایکواڈور کے ساحلی شہر گویاکِل کی جیل میں قیدیوں کے درمیان لڑائی میں گزشتہ تین دنوں میں ایک سو سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعد جمعہ کو حکام کو مسخ شدہ لاشوں کی شناخت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ خدشہ ہے کہ کٹی پھٹی لاشوں کی حتمی شناخت میں کئی دن لگ سکتے ہیں جس کی وجہ سے مارے جانے والوں کے لواحقین شدید خدشات کا شکار ہیں۔ مقامی صحافی بلانکا مونکانڈا پسانٹے نے کچھ لواحقین سے بات کی۔صحافی کے بقول شہر کے مرکزی مردہ خانہ کے باہر جس قدر بڑی تعداد میں لواحقین نظر آ رہے ہیں اتنے گزشہ برس مارچ اور اپریل کے مہینوں میں بھی دکھائی نہیں دیتے تھے جب کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے شہر کے ہر محلے میں موت کا راج تھا۔جیل میں متحارب گروہوں کے درمیان تین روزہ لڑائی کے بعد جب صدر گلرمو لاسو نے اعلان کیا کہ مرنے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے تو درجنوں خاندان اس لیبارٹری کی جانب دوڑ پڑے جہاں لاشوں کو لایا جا رہا تھا۔ یہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے رشتہ دار کہاں ہیں اور آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ان لوگوں کو ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ جیل کے اندر سے ابھی تک دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں تو ان کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ دھماکوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ منشیات فروش گروہوں کے درمیان جیل میں لڑائی ابھی تک جاری ہے اور پولیس صورت حال پر قابو نہیں پا سکی ہے۔جمعرات کی رات 900 اہلکاروں اور فوج کی مدد سے کی جانے والی کارروائی کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے جیل کا نظم و نسق پھر سنبھال لیا ہے اور مرنے والے قیدیوں کی تعداد 118 ہو چکی ہے۔.مردہ خانے کے باہر جمع خاندانوں میں 66 سالہ گستاوو واوئز بھی شامل تھے جن کا 24 سالہ بیٹا اس لڑائی میں مارا گیا۔ ’اس کا نام مرنے والوں کی فہرست میں نہیں ہے لیکن وہ مر چکا ہے کیونکہ میں نے خود اس کی لاش کی تصویر دیکھی ہے اور اسے پہچان لیا ہے۔ کئی دوسرے لوگوں کی طرح گستاوو کو بھی یہ خبر ان تصویروں یا فون پر بنائی جانے والی ویڈیوز سے ملی ہے جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں اور مرنے والوں کے لواحقین ایک دوسرے کو دکھا رہے ہیں۔جمعرات کی دوپہر تک لیبارٹری کے باہر کا علاقہ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ بے چین لواحقین کے اس ہجوم میں کفن دفن کرنے والے لوگ بھی شامل تھے جو اپنے لیے کام تلاش کر رہے تھے۔ان لوگوں نے تابوت تیار کر رکھے تھے کہ جوں ہی کسی لاش کی تصدیق ہوتی ہے وہ اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ یہ منظر کرونا کی شدید وبا کے تاریک دنوں سے بالکل مختلف تھا جب لکڑی کے تابوتوں کی شدید کمی کی وجہ سے کئی لوگ اپنے پیاروں کو گتے کے ڈبوں میں دفن کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔مردہ خانے کے باہر میں نے 50 سالہ زنیدہ موریرہ کو بھی دیکھا جو ہاتھ میں رومال پکڑے اپنے 23 سالہ بیٹے ڈارون کو تلاش کر رہی تھیں جو ایکواڈور کی اس خطرناک ترین جیل میں دو سال سے قید تھا۔وہ منشیات کا عادی تھا اور اسے ایک سکول سے کرسیاں چرانے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔’وہ چوری کی سزا میں جیل کاٹ رہا تھا لیکن اس کے باوجود اسے جیل میں قاتلوں، منشیات سمگل کرنے والوں اور ریپ کے مرتکب افراد کے ساتھ رکھا جا رہا تھا۔‘ڈارون کی والدہ نے جب سے جیل میں ہونے والی شدید لڑائی کی ایک ویڈیو دیکھی ہے وہ بہت خوفزدہ ہیں کہ کہیں ان کا بیٹا تو اس لڑائی میں نہیں مارا گیا۔’میں نہیں جانتی کہ جو لاشیں میں نے دیکھی ہیں ان میں سے ایک میرے بیٹے کی تھی۔ میں نے تن سے جدا ایک سر دیکھا۔ چہرہ میرے بیٹے جیسا ہی تھا لیکن حکام کچھ بھی نہیں بتا رہے۔‘ان کا بیٹا اس موبائل سے والدہ کو فون کیا کرتا تھا جو حکام سے چھپا کر جیل میں اسے پہنچا دیا گیا تھا، لیکن کئی دنوں سے ڈارون کا کوئی فون نہیں آیا۔ان کی بیٹی، اور ڈارون کی تیس سالہ بہن ماریا اپنی والدہ کو تسلی دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان ماں بیٹی نے کسی سے سنا تھا کہ جیل کی سکیورٹی والوں نے بدھ کو تمام قیدیوں سے موبائل فون چھین لیے تھے۔ اسی لیے انھیں امید ہے کہ شاید اسی وجہ سے ڈارون کا فون نہیں آیا۔ لیکن اس کے باوجود یہ دونوں مردہ خانے کے باہر بیٹھی ہوئی ہیں کہ اگر ڈارون کی موت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہوگا۔شہر میں یہ لیبارٹری وہ واحد مقام نہیں جہاں قیدیوں کے خاندان والے جمع ہیں۔ حکام نے ان لوگوں سے یہ بھی کہا کہ شہر میں واقع سپورٹس سٹیڈیم جائیں جہاں لوگوں کو تازہ ترین معلومات فراہم کی جا رہی ہیں اور نفسیاتی مدد بھی دی جائے گی۔لیکن اپنے 20 سالہ بیٹے کی تلاش میں سرگرداں 40 سالہ پیڈرو ماریو کہتے ہیں کہ انھیں وہاں سے نہ تو خبر ملی اور نہ ہی کسی قسم کی نفسیاتی مدد۔سٹیڈیم کے گرد پہرے دینے والے فوجیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں جب یہاں پہنچا تو انھوں نے صرف بیٹے کا نام پوچھا اور یہ پوچھا کہ اس کے جسم پر ٹیٹْو کا نشان تھا یا نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کی۔‘’میں دو راتوں سے سویا نہیں ہوں۔ میں اتنا پریشان ہوں کہ دو دن سے کام پر بھی نہیں جا سکا۔‘کہا جا رہا ہے کہ لڑائی میں سب سے زیادہ اموات جیل کے وِنگ نمبر پاچ اور چھ میں ہوئیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ لڑائی میں وِنگ نمبر پانچ میں کچھ لاشوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ ان اطلاعات سے لگتا ہے کہ لاشوں کی شناخت میں مزید تاخر ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ بہت سے قیدی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ کم از کم 50 زخمیوں کو منگل اور بدھ کو ہسپتال بھی لایا گیا تھا۔
جیل میں قیدیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ طبی عملے کے کچھ لوگوں کو خطرہ ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کے درمیان جو لڑائی جیل سے شروع ہوئی تھی وہ کہیں ہسپتال تک نہ پہنچ جائے۔دوسری جانب جوں جوں پولیس جیل کے تمام حصوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لے رہی ہے، خدشہ ہے کہ وہاں سے مزید لاشیں بھی برآمد ہو سکتی ہیں۔