ایران نے معطل جوہری مذاکرات پرامریکا سے رابطے کی تصدیق کردی

تہران،جون۔ ایرانی وزیرخارجہ حسین امیرعبداللہیان نے 2015ء میں طے شدہ مگراب متروک جوہری معاہدے پر امریکا کے ساتھ تعطل کا شکار مذاکرات کے حوالے سے رابطے کی تصدیق کی ہے۔انھوں نے منگل کے روز صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے امریکی نائب صدرکمالاہیرس کے ساتھ تیسرے فریق کے ذریعے مذاکرات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا اور انھوں نے اس سال کے اوائل میں میونخ میں ایک کانفرنس کے موقع پر امریکی نائب صدر سے یہ رابطہ کیا تھا۔ایران امریکا سے جوہری معاہدے کی بحالی کے ضمن میں بارباراس بات کی ضمانت کا مطالبہ کررہا ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی امریکی صدر یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو ترک نہیں کرسکتاجیسا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں کیا تھا۔ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ ’’میں نے (ایک ثالث) سے کہا کہ وہ میونخ میں موجوداعلیٰ امریکی عہدیداروں، محترمہ کمالا ہیرس اور وزیرخارجہ مسٹر (انٹونی) بلینکن کو بتائیں کہ گذشتہ مہینوں کے دوران میں مذاکرات میں اتنی محنت کے باوجود آپ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم جس بھی معاہدے پرمتفق ہوں گے، اس کے بارے میں ہم اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ اگلی امریکی انتظامیہ بھی اس کا احترام کرے گی‘‘۔انھوں نے مزیدبتای:’’میں نے وزیر(نامعلوم) سے کہا کہ براہ مہربانی محترمہ کمالاہیرس سے کہیں:’اگر باغیوں کا ایک گروپ وائٹ ہاؤس پرقبضہ کرنے جارہا ہے تو کیا آپ براہ کرم ہمیں بتا سکتے ہیں؟‘اگر باغیوں کا ایک گروپ قبضہ بھی کرلیتا ہے توانھیں بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر بین الاقوامی معاہدوں پر کاربندرہنا ہوگا۔یہ قابل قبول نہیں ہے،قانونی طور پراور نہ ہی سیاسی طور پر، موجودہ انتظامیہ کے لیے یہ کہنا کہ وہ معاہدے کی بحالی کی صورت میں ایسی کوئی ضمانت پیش نہیں کر سکتی کہ اگلی انتظامیہ کیا کرے گی؟‘‘۔دوسری جانب وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ وہ ایسا کوئی عہد نہیں کر سکتا۔امریکا اور پانچ دیگرطاقتوں نے ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے کی تجدید کے لیے ویانا میں گذشتہ ایک سال کے دوران میں بات چیت کے متعدد ادوار کیے ہیں لیکن امریکا اور ایران کے درمیان بعض متنازع امور طے نہ ہونیکی وجہ سے یہ مذاکرات اب تعطل کا شکار ہوچکے ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ مئی 2018ء میں اس جوہری معاہدے سے یک طرفہ دستبردار ہوگئے تھے۔انھوں نے کہا تھا کہ یہ ایران کو جوہری سرگرمیوں سے بازرکھنے میں ناکام رہا ہے۔انھوں نے اس کے بعد ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں اور اب ایران ان پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہا ہے۔ایران نے امریکا کی دستبرداری کے بعد جوہری معاہدے میں طے شدہ حدود سے کہیں ماورا اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لائی ہے اور اس نے گذشتہ ہفتے خلیج سے گزرنے والے ایک اہم سمندری راستے میں دو یونانی ٹینکروں پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد ایک مرتبہ پھر اس کی مغربی ممالک کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

Related Articles