آکوس: چین کا ایشیا پیسیفک معاہدے میں شمولیت کا فیصلہ اور آکوس معاہدے کی مذمت
آخر اس خطے میں اچانک ہونے والے معاہدوں کی وجہ کیا ہے؟
واشنگٹن/بیجنگ،ستمبر-چین نے خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایشیا پیسیفک تجارتی معاہدے کی رکنیت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ فیصلہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک تاریخی معاہدے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔سی پی ٹی پی پی نامی اس تجارتی معاہدے کو دراصل امریکہ نے چین کے خطے میں اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے بنایا تھا تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2017 میں اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔چین کے وزیرِ کامرس وانگ وینٹاؤ نے بتایا کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے اس فری ٹریڈ معاہدے کا حصہ بننے کے لیے نیوزی لینڈ کے وزیرِ تجارت کو خط لکھ دیا ہے۔ نیوزی لینڈ اس معاہدے کے انتظامی امور سنبھالتا ہے۔خیال رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے اس ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ (ٹی پی پی) کے قیام کے وقت اسے ایشیا پیسیفک میں چین کے بڑھتے معاشی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے والا معاشی بلاک قرار دیا گیا تھا۔جب صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تو جاپان نے ان مذاکرات اور مشاورت کے بعد سی پی ٹی پی پی کے قیام کا اعلان کیا۔سی پی ٹی پی پی معاہدے پر سنہ 2018 میں 11 ممالک نے دستخط کیے تھے جن میں آسٹریلیا کینیڈا، چلی، جاپان اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔جون میں برطانیہ نے سی پی ٹی پی پی کا حصہ بننے کے لیے باضابطہ مذاکرات کا اعلان کیا تھا اور تھائی لینڈ نے بھی اس میں شمولیت حاصل کرنے کے لیے دلچسپی ظاہر کی تھی۔سی پی ٹی پی پی میں شمولیت چین کے لیے ایک اہم پیش رفت ثابت ہو گی خاص طور پر اس لیے کیونکہ اس نے گذشتہ نومبر میں 14 ممالک پر مبنی آر سی ای پی نامی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔آر سی ای پی دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے جس میں کوریا، چین، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔آکوس معاہدے کا اعلان بدھ کو انٹرنیٹ پر ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا جس میں امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور ان کے آسٹریلوی ہم منصب سکاٹ موریسن موجود تھے۔اس معاہدے کو آکوس کا نام دیا گیا ہے جو دراصل آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے ناموں کے حروف تہجی (اے، یو کے، یو ایس) پر مشتمل ہے۔اگرچہ پریس کانفرنس میں چین کا براہ راست نام نہیں لیا گیا، تاہم تینوں رہنماؤں نے (ایشیا پیسیفِک) کے خطے میں دفاعی خدشات کا بار بار ذکر کیا اور ان کا کہنا تھا کہ ان خدشات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔حالیہ عرصے میں چین کو اس الزام کا سامنا رہا ہے کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں موجود متنازعہ علاقوں میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیر دفاع بین والس کا کہنا تھا کہ چین اتنے بڑے عسکری اخراجات کرنے جا رہا ہے جس کی تاریخ میں مثال کم ہی ملتی ہے۔’چین بڑی تیزی سے اپنی بحریہ اور فضائی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ چین کچھ علاقائی تنازعات میں شریک ہے اور ان علاقوں میں ہمارے اتحادی ممالک کی خواہش ہے کہ وہ بھی اپنا دفاع کر سکیں۔’تجزیہ کاروں کے خیال میں گذشتہ کئی عشروں میں دفاعی شعبے میں یہ تینوں ممالک کے درمیان طے پانے والے بڑے معاہدوں میں سے ایک ہے اور اس کے تحت تینوں ملکوں میں مصنوعی ذہانت سمیت دیگر جدید ترین ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہو گا۔اس معاہدے کے تحت آسٹریلیا پہلی مرتبہ جوہری ایندھن سے لیس آبدوزیں بنائے گا جس کے لیے ٹیکنالوجی امریکہ فراہم کرے گا۔چین اور فرانس نے امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے سکیورٹی سے متعلق نئے تاریخی معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور ’دھوکہ‘ قرار دیا ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ڑاؤ لیجِیان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ علاقائی امن اور استحکام کو بری طرح متاثر کرے گا اور اس سے اسلحے کی دوڑ میں شدت آ جائے گی۔’ماضی میں آسٹریلیا اور چین کے درمیان تعلقات خوشگوار رہے ہیں اور آسٹریلیا چین کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ملک رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ان کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔جب سے آسٹریلیا نے فرانس سے 12 آبدوزوں کی خریداری کے 27 ارب پاؤنڈ کے معاہدے کو ختم کیا ہے، آسٹریلیا اور فرانس کے درمیان بھی تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ باہمی اعتبار کی بنیاد پر رشتہ قائم کیا تھا، لیکن (آسٹریلیا نے) ہمیں دھوکہ دیا ہے۔’بی بی سی ورلڈ ٹو نائٹ کے پروگرام سے بات کرتے ہوئے سابق فرانسیسی سفیر جیرارڈ اراؤڈ کا کہنا تھا کہ یہ ایک افسوسناک لمحہ ہے۔ امریکہ کو معلوم تھا کہ یہ معاہدہ فرانس کی قومی مفاد میں ہے لیکن پھر بھی امریکہ نے اس کا خیال نہیں کیا۔امریکی وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے فرانس کو ایک اہم شراکت دار قرار دیا اور کہا کہ واشنگٹن پیرس کے ساتھ انتہائی قریبی روابط رکھے گا۔وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری جین ساکی نے فرانس کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو نظر انداز کیا۔ ایسی کئی شراکتیں ہیں جن کا فرانس حصہ ہے اور ایسی بھی ہیں جن کا وہ حصہ نہیں ہے۔ اور ان کی دیگر ممالک کے ساتھ ایسی شراکتیں ہیں جن کا ہم حصہ نہیں ہیں۔ عالمی طور پر سفارت کاری ایسے ہی کی جاتی ہے۔’اس معاہدے کا بڑا ہدف عسکری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا اور اور یہ معاہدہ پانچ ممالک کے درمیان فائیو آئیز (پانچ آنکھیں) نامی معاہدے سے الگ ہوگا جس میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے علاہ نیوزی لینڈ اور کینیڈا بھی شامل ہیں۔ فائیو آئیز کے تحت یہ پانچوں ممالک آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔آسٹریلیا کے معروف تھِنک ٹینک ایشیا سوسائٹی آسٹریلیا سے منسلک گائے بْکنسٹین کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تینوں ممالک نے ریت پر ایک لکیر کھینچ دی ہے اور اِنڈو پیسیفِک کے علاقے میں چین کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اگرچہ نئے معاہدے میں سب سے بڑی چیز آسٹریلیا کے لیے 12 جدید ترین آبدوزوں کی فراہمی ہو گی، تاہم اس کے تحت تینوں ممالک سائبر ٹیکنالوجی اور سمندر کے اندر استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں گے۔روایتی آبدوزوں کے مقابلے میں جوہری ایندھن سے چلنے والی آبدوزوں کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے اور روایتی آبدوزوں کے مقابلے میں ان کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔اس کے علاہ جوہری آبدوزیں کئی ماہ تک سمندر کے اندر رہ سکتی ہیں، زیادہ فاصلے تک میزائل داغ سکتی ہیں اور ان پر زیادہ میزائل لادے جا سکتے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان آبدوزوں کا آسٹریلیا میں موجود ہونا، اس خطے میں امریکہ کے اثرورسوخ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔یہ 50 برس میں پہلا موقع ہے جب امریکہ نے کسی دوسرے ملک کو اپنی آبدوزوں کی ٹیکنالوجی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے یہ ٹیکنالوجی صرف برطانیہ کو دی تھی۔اس معاہدے کے بعد امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا اور روس کے بعد آسٹریلیا وہ ساتواں ملک ہو گا جو جوہری ایندھن سے چلنے والی آبدوزیں استعمال کرے گا۔آسٹریلیا نے اپنے اس عہد کا اعادہ کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔واشنگٹن میں ہونے والی کواڈ میٹنگ سے قبل انڈیا اب تک آسٹریلیا، امریکہ اور برطانیہ کی آکوس سکیورٹی شراکت پر خاموش ہے۔ یہ بلاک چین کے انڈو پیسیفک خطے میں اثر و رسوخ کے خلاف بنایا گیا ہے۔انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اس نئے معاہدے کے بارے میں بیان دینے سے گریز کیا اور کہا کہ میرے پاس اس وقت اس حوالے سے شیئر کرنے کے لیے کوئی معلومات نہیں ہیں۔’باگچی نے کواڈ میٹنگ پر اس نئے معاہدے کے اثر سے متعلق دعوؤں کو مسترد کیا اور کہا کہ میرے خیال میں کواڈ اجلاس اپنی جگہ ایک علیحدہ حیثیت رکھتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے درمیان ایک باقاعدہ اجلاس ہونے جا رہا ہے۔’آن لائن نیوز ویب سائٹ دی پرنٹ نے ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ انڈیا کے لیے یہ معاہدہ انتہائی مفید ثابت ہونے والا ہے کیونکہ اس کے اراکین انڈیا کے اتحادی ہیں۔